Danishkadah Danishkadah Danishkadah
حضرت امام علی نے فرمایا، حالات کی ابتری میں مردوں کے جوہر کھلتے ہیں اور گردشِ زمانہ سے مخفی صلاحیتیں ظاہر ہوتی ہیں۔ اصول کافی خطبۃ لامیر المومنین ؑ حدیث4

نہج البلاغہ خطبات

(وہ لوگ) گمراہی کے راستوں پر لگ کر اور ہدایت کی راہوں کو چھوڑ کر (افراط و تفریط کے) دائیں بائیں راستوں پر ہو لیے ہیں جو بات کہ ہو کر رہنے والی اور محل انتظار میں ہو اس کیلئے جلدی نہ مچاؤ اور جسے ”کل“ اپنے ساتھ لیے آرہا ہے۔ اس کی دوری محسوس کرتے ہوئے ناگواری ظاہر نہ کرو۔ بہتیرے لوگ ہیں کہ جو کسی چیز کیلئے جلدی مچاتے ہیں اور جب اسے پالیتے ہیں تو پھر یہ چاہنے لگتے ہیں کہ اسے نہ ہی پاتی تو اچھا تھا ”آج“ آنے والی ”کل“ کے اجالوں سے کتنا قریب ہے۔ اے میری قوم یہی تو وعدہ کی ہوئی چیزوں کے آنے اور ان فتنوں کے نمایاں ہوکر قریب ہونے کا زمانہ ہے کہ جن سے ابھی تم آگاہ نہیں ہو‘ دیکھو! ہم (اہلبیت) میں سے جو (ان فتنوں کا دور) پائے گا‘ وہ اس میں (ہدایت کا) چراغ لے کر بڑھے گا اور نیک لوگوں کی راہ و روش پر قدم اٹھائے گا تاکہ بندھی ہوئی گرہوں کو کھولے اور بندوں کو آزاد کرے اور حسب ضرورت جڑے ہوئے کو توڑے اور ٹوٹے ہوئے کو جوڑے وہ لوگوں کی (نگاہوں سے) پوشیدہ ہوگا۔ کھوج لگانے والے پیہم نظریں جمانے کے باوجود بھی اس کے نقش قدم کو نہ دیکھ سکیں گے- اس وقت ایک قوم کو (حق کی سان پر) اس طرح تیز کیا جائے گا جس طرح لوہار تلوار کی باڑ تیز کرتا ہے۔ قرآن سے ان کی آنکھوں میں جلا پیدا کی جائے گی اور اس کے مطالب ان کے کانوں میں پڑتے رہیں گے اور حکمت کے چھلکتے ہوئے ساغر انہیں صبح و شام پلائے جائیں گے-

اسی خطبہ کا ایک جز یہ ہے : ان کی (گمراہیو ں کا) زمانہ بڑھتا ہی رہا تاکہ وہ اپنی رسوائیوں کی تکمیل اور سختیوں کا استحقاق پیدا کرلیں ۔ یہاں تک کہ جب وہ مدت ختم ہونے کے قریب آگئی اور ایک (فتنہ انگیز) جماعت فتنوں کا سہارا لے کر بڑھی اور جنگ کی تخم پاشیوں کیلئے کھڑی ہوگئی تو اس وقت ایمان لانے والے اپنے صبر و شکیب سے اللہ پر احسان نہیں جتاتے تھے اور نہ حق کی راہ میں جان دینا کوئی بڑا کارنامہ سمجھتے تھے۔ یہاں تک کہ جب حکم قضائے مصیبت کا زمانہ ختم کر دیا تو انہوں نے بصیرت کے ساتھ تلواریں اٹھا لیں اور اپنے ہادی کے حکم سے اپنے رب کے احکام کی اطاعت کرنے لگے اور جب اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دنیاسے اٹھایا تو ایک گروہ الٹے پاؤں پلٹ گیا اور گمراہی کی راہوں نے اسے تباہ و برباد کر دیا اور وہ اپنے غلط سلط عقیدوں پر بھروسا کر بیٹھا (قریبیوں کو چھوڑ کر) بیگانوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے لگا اور جن (ہدایت کے) وسیلوں سے اسے مودت کا حکم دیا گیا تھا۔ انہیں چھوڑ بیٹھا اور (خلافت کو) اس کی مضبوط بنیادوں سے ہٹا کر وہاں نصب کر دیا‘ جو اس کی جگہ نہ تھی یہی تو گناہوں کے مخزن اور گمراہی میں بھتکنے والوں کا دروازہ ہیں ۔ وہ حیرت و پریشانی میں سرگرداں اور آل فرعون کی طرح گمراہی کے نشہ میں مدہوش پڑے تھے۔ کچھ تو آخرت سے کٹ کر دنیا کی طرف متوجہ تھے اور کچھ حق سے منہ موڑ کر دین چھوڑ چکے تھے۔

خطبہ 148: حضرت حجت [ع] کی غیبت اور پیغمبر کے بعد لوگوں کی حالت کا تذکرہ