Danishkadah Danishkadah Danishkadah
حضرت امام علی نے فرمایا، عدل و انصاف سے کام لینا سب سے بڑا ثواب ہے۔ مستدرک الوسائل حدیث13125

نہج البلاغہ خطبات

اللہ سبحانہ‘ نے اپنے رسولوں کو وحی کے امتیازات کے ساتھ بھیجا ار انہیں مخلوق پر اپنی حجت ٹھہرایا تاکہ وہ یہ عذر نہ کر سکیں کہ ان پر حجت تمام نہیں ہوئی ۔ چنانچہ اللہ نے انہیں سچی زبانوں سے راہ حق کی دعوت دی (یوں تو ) اللہ مخلوقات کو اچھی طرح جانتا بوجھتا ہے اور لوگوں کے ان رازوں اور بھیدوں سے کہ جنہیں وہ چھپا کر رکھتے ہیں بے خبر نہیں (پھر یہ حکم و احکام اس لیے دیئے ہیں ) کہ وہ ان لوگوں کو آزما کر ظاہر کر دے کہ ان میں اعمال کے اعتبار سے کون اچھا ہے تاکہ ثواب ان کی جز اور عقاب ان کی (بداعمالیوں ) کی پاداش ہو کہاں ہیں وہ لوگ کہ جو جھوٹ بولتے ہوئے اور ہم پر ستم روا رکھتے ہوئے یہ ادعا کرتے ہیں کہ وہ راسخون فی العلم ہیں نہ ہم ۔ چونکہ اللہ نے ہم کو بلند کیا ہے اور انہیں گرایا ہے اور ہمیں منصبِ امامت دیا ہے اور انہیں محروم رکھا ہے ۔ ہم ہی سے ہدایت کی طلب اور گمراہی کی تاریکیوں کو چھانٹنے کی خواہش کی جا سکتی ہے بلا شبہ امام قریش میں سے ہوں گے جو اسی قبیلہ کی ایک شاخ بنی ہاشم کی کشت زار سے ابھریں گے ۔ نہ امامت کسی اور کو زیب دیتی ہے اور نہ ان کے علاوہ کوئی اس کا اہل ہو سکتا ہے ۔

اسی خطبہ کا ایک جزیہ ہے ۔ ان لوگوں نے دنیا کو اختیار کر لیا ہے اور عقبیٰ کو پیچھے ڈال دیا ہے ۔ صاف پانی چھوڑ دیا ہے اور گندا پانی پینے لگے ہیں گویا میں ان کے فاسق کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ برائیوں میں رہا اتنا کہ انہی برائیوں سے اسے محبت ہو گئی اور ان سے مانوس ہو ا اور ان سے اتفاق کرتا رہا۔ یہاں تک کہ (انہی برائیوں میں ) اس کے سر کے بال سفید ہو گئے اور اسی رنگ میں اس کی طبیعت رنگ گئی پھر یہ کہ وہ (منہ سے) کف دیتا ہوا متلاطم دریا کی طرح آگے بڑھا بغیر اس کا کچھ خیال کئے کہ کس کو ڈبو رہا ہے اور بھوسے میں لگی ہوئی آگ کی طرح پھیلا بغیر اس کی پروا کئے ہونے کہ کونسی چیزیں بلا رہا ہے ۔ کہاں ہیں ہدایت کے چراغوں سے روشن ہونے والی عقلیں اور کہاں ہیں تقویٰ کے روشن مینار کی طرف دیکھنے والی آنکھیں اور کہں ہیں اللہ کے ہو جانے والے قلوب اور اس کی اطاعت پر جم جانے والے دل وہ تو مال دنیا پرٹوٹ پڑے ہیں اور (مال) حرام پر جھگڑ رہے ہیں ۔ ان کے سامنے جنت اور دوزخ کے جھنڈے بلند ہیں ، لیکن انہوں نے جنت سے اپنے منہ موڑ لیے ہیں اور اپنے اعملا کی وجہ سے دوزخ کی طرف بڑھ نکلے ہیں ۔ اللہ نے ان لوگوں کو بلایا تو یہ بھڑک اٹھے اور پیٹھ پھر ا کر چل دیئے اور شیطان نے ان کو دعوت دی تو لبیک کہتے ہوئے اس کی طرف لپک پڑے ۔

(۱) اس سے عبدالملک ابن مروان مراد ہے کہ جس نے اپنے عامل حجاج ابن یوسف کے ذریعہ ظلم و سفاکی کی انتہا کر دی تھی۔

خطبہ 142: اہل بیت [ع]”راسخون فی العلم “ہیں اور وہی امامت و خلافت کے اہل ہیں