Danishkadah Danishkadah Danishkadah
حضرت امام علی نے فرمایا، کسی شخص کی رائے اس کے تجربہ کے مطابق (قابلِ قدر) ہوتی ہے۔ غررالحکم حدیث10146

نہج البلاغہ خطبات

اس میں بصرہ کے اندر برپا ہونے والے ہنگاموں کا تذکرہ ہے ۔

اے اخف! میں اس شخص کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں کہ وہ ایک ایسے لشکر کو لے کر بڑھ رہا ہے کہ جس میں نہ گردو غبار ہے نہ شرو غوغا، نہ لگاموں کی کھڑ کھڑاہٹ ہے اور نہ گھوڑوں کے ہنہنانے کی آواز وہ لوگ زمین کو اپنے پَیروں سے جو شتر مرغ کے پیروں کے مانند ہیں ۔ روند رہے ہوں گے ۔

سید رضی کہتے ہیں کہ حضرت نے اس سے حبشیوں کے سردار کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ پھر آپ نے فرمایا: ان لوگوں کے ہاتھوں سے کہ جن کے قتل ہو جانے والوں پر بین نہیں کیا جاتا ۔ اور گم ہونے والوں کو ڈھونڈھا نہیں جاتا تمہاری ان آباد گلیوں اور سجے سجائے مکانوں کے لیے تباہی ہے کہ جن کے چیجے گدوں کے پروں اور ہاتھیوں کی سونڈوں کے مانند ہیں ۔ میں دنیا کو اوندھے منہ گرانے والا اور اس کی بساط کا صحیح اندازہ رکھنے والا اور اس کے لائق حال نگاہوں سے دیکھنے والا ہوں ۔

اسی خطبہ کے ذیل میں ترکوں کی حالت کی طرف اشارہ کیا ہے :۔ میں (۱) ایسے لوگوں کو دیکھ رہا ہوں کہ جن کے چہرے ان ڈھالوں کی طرح ہیں کہ جن پر چمڑے کی تہیں منڈھی ہوئی ہوں وہ ابر یشم و دیبا کے کپڑے پہنتے ہیں اور اصیل گھوڑوں کو غریز رکھتے ہیں اور وہاں کشت و خون کی گرم بازاری ہو گی ۔ یہاں تک کہ زخمی کشتوں کے اوپر سے ہوکر گزریں گے اور بچ کر بھاگ نکلنے والے ایسر ہونے والوں سے کم ہوں گے ۔

(اس موقع پر) آپ کے اصحاب میں سے ایک شخص نے جو قبیلہٴ بنی کلب سے تھا ۔ عرض کیا کہ یا امیرا لموٴمنین[ع]آپ کو تو علم غیب حاصل ہے ۔ جس پر آپ ہنسے اور فرمایا اسے برادر کلبی ! یہ علم غیب نہیں بلکہ ایک صاحب علم (رسول) سے معلوم کی ہوئی باتیں ہیں ۔علم غیب تو قیامت کی گھڑی اور ان چیزوں کے جاننے کا نام ہے کہ جنہیں اللہ سبحانہ ، نے اِنَّ اللہَ عِندَ ہ‘ عِلْمُ الشَّا عَتِہ عالی آیت میں شمار کیا ہے ۔ چنانچہ اللہ ہی جانتا ہے کہ شکموں میں کیا ہے ۔ نر ہے یا مادہ ، بد صورت ہے یا خوبصورت سخی ہے یا بخیل بدبخت ہے یا خوش نصیب اور کون جہنم کا ایندھن ہو گا۔ اور کون جنت میں نبیوں کا رفیق ہوگا۔ یہ وہ علم غیب ہے جسے اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ رہا دوری چیزوں کا علم تو وہ اللہ نے اپنے نبی کو دیا اور نبی نے مجھے بتایا اور میرے لیے دعا فرمائی کہ میرا سینہ انہیں محفوظ رکھےّ اور میری پسلیاں انہیں سمیٹے رہیں ۔

(۱) علی ابن محمدر سے کے مضافات میں ور زئین نامی ایک گاؤں میں پیدا ہوا۔ خوارج کے فرقہ زار قہ سے تعلق رکھتا تھا اور خود کو محمد ابن احمد مختفی ابن عیسیٰ ابن زید ابن علی کا فرزند کہہ کر سیادت کا مُدّعی بنتا تھا ۔ مگر اہل انساب و سیر نے اس کے دعویٰ سیادت کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے اور اس کے باپ کا نام محمد احمد کے بجائے محمد ابنِ ابراہیم تحریری کیا ہے جو قبیلہ عبدالقیس سے تھا اور ایک سندھی کنیز کے بطن سے متولّد ہوا تھا۔

علی ابن محمد نے ۲۵۵ئھ میں مہتدی باللہ کے دور میں خروج کیا اور اطراف بصرہ میں بسنے والے غلاموں کو مال و دولت اور آزادی کا لالچ دے کر اپنے ساتھ ملا لیا اور ۱۷ شوال ۲۵۷ء ھ میں مار دھاڑ کر تا ہوا بصرہ کے اندر داخل ہوا اور صرف دو دن میں تیس ہزار افراد کو کہ جن میں بچے بوڑھی عورتیں سب ہی تھیں موت کے گھاٹ اتاردیا اور ظلم و سفا کی اور وحشت و خونخواری کی انتہا کر دی ، مکانوں کو مسمار کر دیا اور مسجدوں میں آگ لگا دی اور لگاتار چودہ برس تک قتل و غارت گری کے بعد موفق کے دور میں صفر ۲۷۰ ئھ میں قتل ہوا اور لوگوں کو اس کی تباہ کاریوں سے نجات ملی۔“

امیر الموٴمنین کی یہ پیشین گوئی ان پیشنگوئیوں میں سے ہے جو آپ کے علم امامت پر روشنی ڈالتی ہیں ۔ چنانچہ اس کے لشکر کی جو کیفیت بیان فرمائی ہے کہ نہ اس میں گھوڑوں کے ہنہنانے کی آواز اور نہ ہتھیاروں کے کھڑکھڑا نے کی صدا ہو گی ۔ ایک تاریخی حیثیت رکھتی ہے ۔ جیسا کہ مُورخ طبری نے لکھا ہے کہ جب یہ خروج کے ارادے سے مقام کر خ کے قریب پہنچا تو وہاں کے لوگوں نے اس کا خیر مقدم کیا اور ایک شخص نے ایک گھوڑا بطور تحفہ اسے پیش کیا ۔ مگر تلاش کے باوجود اس کے لیے لگام نہ مل سکی آخر ایک رسی کی لگام دے کر اس پر سوار ہوا۔ اور یونہی اس کے لشکر میں اس وقت صرف تین تلواریں تھیں ایک خود اس کے پاس اور ایک علی ابن مہلبی اور ایک محمد ابن مسلم کے پاس اور بعدمیں لوٹ مار سے کچھ اور اسلحہ ان کے ہاتھ لگ گیا تھا۔

(۲) امیر المومنین کی پیشین گوئی تا تاریوں کے حملہ کے متعلق ہے جو ترکستان کے شمالی مشرق کی جانب صحرائے منگو لیا کے رہنے والے تھے ۔ ان تین و حشی قبیلوں کی زندگی لوٹ مار اور قتل و غارت میں گزرتی تھی اور آپس میں لڑتے بھڑتے اور گردو نواح پر حملے کرتے رہتے تھے ۔ ہر قبیلہ کا سردار الگ الگ ہوتا تھا جو ان کی حفاظت کا ذمہ دار سمجھا جاتا تھا۔ چنگیز خان جو انہی تاتاری قبائل کے کے حکمران خاندان کا ایک فرد اور بڑا باہمت و جراٴت مند تھا ان تمام منتشر و پراگندہ قبیلوں کو منظم کرنے کے لیے اٹھا اور ان کے مزاحم ہونے کے باوجود اپنی قوت و حسن تدبیر سے ان پر قابو پانے میں کامیاب ہو گیا ۔ اور ایک کثیر تعداد اپنے پرچم کے نیچے جمع کر کے ۶۰۶ ئھ میں سیلاب کی طرح امنڈ اور شہروں کو غرق اور آبادیوں کو ویران کرتا ہوا شمالی چین تک کا علاقہ فتح کر لیا۔

جب اس کا اقتدار قائم ہو گیا تو اس نے اپنے ہمسایہ ملک ترکستان کے فرمانروا علاؤ الدین خوارزم شاہ کی طرف دست مصالحت بڑھایا اور ایک وفد بھیج کر اس سے عہد لیا کہ تا تاری تاجر اس کے علاقہ میں خرید و فروخت کے لیے آتے جاتے رہیں گے ۔ ان کے جان و مال کو کسی قسم کا گزند نہ پہنچا جائے ۔ چنانچہ کچھ عرصہ تک وہ بے کھٹکے آتے جاتے رہے ۔ مگر ایک موقع پر اس نے تاتاری تاجروں پر جاسوسی کا الزام لگا کر ان کا مال لوٹ لیا اور انہیں وائی اترار کے ذریعہ قتل کروا دیا۔ چنگیز خان کو جب معاہدہ کی خلاف ورزی اور تاتاری تاجروں کے مارے جانے کا علم ہوا تو اس کی آنکھوں سے شرارلے برسنے لگے ۔ غصہ میں پیچ و تاب کھانے لگا اور علاؤ الدین کو پیغام بھیجا کہ وہ تاتاری تاجروں کا مال واپس کرے اور والی اترار کو اس کے حوالے کرے، مگر علاؤ الدین اپنی قوت و طاقت کے نشہ میں مدہوش تھا اس نے کوئی پروانہ کی اور ناعاقبت اندیشی سے کام لیتے ہوئے چنگیز خان کے ایلچی کو بھی مروا دیا اب چنگیز خان میں تابِ ضبط نہ رہی ۔ اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا ۔ شمشیر بکف اٹھ کھڑا ہو اور تاتاری جنگجو باورفتار گھوڑے دوڑاتے ہوئے بخارا پر چڑھ دوڑے ۔ علاؤلدین بھی چار لاکھ نبرد آزماؤں کے ساتھ مقابلہ کو نکلا مگر تاتاریوں کے تابڑ توڑ حملوں کو نہ روک سیا۔ اور چند ہی حملوں میں سپر انداختہ ہو کر جیحون کے راستہ سے نیشاپور کی طرف بھاگ کھڑا ہوا ۔ تاتاریوں نے بخارا کی اینٹ سے اینٹ بجاد ی۔ مسجدوں اور مدرسوں کو مسمار اور گھروں کو پھونک کر راکھ کا ڈھیر کر دیا اور بلا امتیاز زن و مرد سب کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور اگلے سال سمر قند پر یورش کی اور اسے بھی تباہ و برباد کر کے رکھ دیا:۔

علاؤ الدین کے نکل بھاگنے کے بعد اس کے بیٹے جلال الدین خوارزم شاہ نے حکومت کی باگ ڈور سنبھال لی تھی تاتاریوں نے اس کا بھی پیچھا کیا مگر وہ دس برس تک ادھر سے ادھر بھاگتا پھر ا اور ان کے ہاتھ نہ لگا اور آخر دریا کو عبور کر کے اپنی مدد سلطنت سے باہر نکل گیا اس اثنا میں تاتاریوں نے آباد زمینوں کو ویران اور نسلِ انسانی کو تباہ کرنے میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا نہ کوئی شہر ان کی غارت گویں سے بچ سکا اور نہ کوئی آبادی ان کی پامالیوں سے محفوظ رہ سکی جدھر کا رخ کیا مملکتوں کو تہ و بالا کر دیا ۔ حکومتوں کا تختہ الٹ دیا اور تھوڑے عرصہ میں ایشیا کے بالائی حصہ پر اپنا اقتدار قائم کر لیا۔

جب ۶۲۲ ئھ میں چنگیز خان کا انتقال ہوا تو اس کی جگہ اس کا بیٹا اوکتائی خاں تخت نشین ہوا جس نے ۶۲۸ ئھ میں جلال الدین کو ڈھونڈھ نکالا اور اسے قتل کر دیا۔ اس کے بعد چنگیز خاں کے دوسرے لڑکے کے تولی خان کا بیٹا منکو خاں تخت حکومت پر بیٹھا، منکو خاں کے بعد قوبیلائی خان مملکت کے ایک حصہ کا وارث ہوا۔ اور وسط ایشیا اس کے بھائی ہلا کو خاں کے حصہ میں آیا۔ جب سلطنت چنگیز خاں کے پوتوں میں بٹ گئی تو ہلاکو خاں اسلامی ممالک کو تسخیر کرنے کی فکر میں تھا ہی کہ خراساں کے حقیوں نے شافیوں کی ضد میں آکر اسے خراساں پر حملہ کرنے کی دعوت دی ۔ چنانچہ اس نے خراسان پر چڑھائی کر دی اور حنفیوں نے اپنے کو تاتاری تلواروں سے محفوظ سمجھتے ہوئے شہر کے دروازے کھول دیئے ۔ مگر تاتاریوں نے حنفیوں اور شافعیوں میں کوئی امتیاز نہ کیا اور جو سامنے آیا اسے تہ تیغ کر دیا اور وہاں کی بیشتر آبادی کو قتل کرنے کے بعد اسے اپنے مقبوضات میں داخل کر لیا اور انہی شافعیوں اور حنفیوں کے جھگڑوں نے اس کے لیے عراق تک کے فتوحات کا دروازہ کھول دیا۔ چنانچہ خراسان کو فتح کرنے کے بعد ان کی ہمت بڑھ گئی اور ۶۵۶ ئھ میں دو لاکھ تاتاریوں کے ساتھ بغداد کی جانب لشکر کشی کی معتصم باللہ کی فوج اور اہل بغداد نے مل کر مقابلہ کیا مگر اس سیلاب بلا کو روکنا ان کے بس میں نہ تھا۔ چنانچہ تاتاری مار دھاڑ کرتے ہوئے عاشورا کے دن بغداد کے اندر داخل ہو گئے اور چالیس دن تک اپنی خون آشام تلواروں کی پیاس بجھاتے رہے ۔ گلی کوچوں میں خون کی ندیاں بہادیں راستے لاشوں سے پاٹ دیئے لاکھوں آدمیوں کو تہ تیغ کر دیا اور معتصم باللہ کو پیروں کے نیچے روند کر مار ڈالا اور صرف وہی لوگ بچ سکے جو کنوؤں اور تہ خانوں میں چھُپ کر ان کی آنکھوں سے اوجھل رہ سکے ۔ یہ تھی بغداد کی وہ تباہی کہ جس سے عباسی سلطنت بنیاد سے ہل گئی اور اس کا پرچم پھر لہرانہ نہ سکا:۔

بعض مورخین نے اس تباہی و بربادی کی ذمہ داری ابن علقمی پر عائد کی ہے کہ اس نے شیعوں کے قتلِ عام اور محلہ کرخ کی تباہی سے متاثر ہور کر نصیر الدین طوسی و زیر ہلاکو خان کو وساطت سے اسے بخداد پر حملہ آور ہونے کی دعوت دی۔ اگر ایسا ہو بھی تو اس تاریخی حقیقت کو نظر اندا ز نہیں کیا جا سکتا کہ اس سے پہلے اسلامی ممالک پرحملہ کرنے کی تحریک خلیفہ عباسی الناصر لدین اللہ کر چکا تھا چنانچہ جب خوارزمیوں نے مرکز خلافت کے اقتدار کو تسلیم کرنے سے انکار دیا تو اس نے چنگیز خان کو خوارزم پر حملہ کرنے کے لیے کہلوایا تھا جس سے تاتاریوں کو یہ اندازہ ہو گیا کہ مسلمانوں میں یک جہتی و اتحاد نہیں ہے اور پھر حنفیوں نے شافعیوں کی سرکوبی کے لیے ہلاکو خان کو بلاوا بھیجا تھا جس کے نتیجہ میں خراسان پر ان کا اقتدار قائم ہو گیا اور بغداد کی طرف پیشقدمی کرنے کے لیے انہیں راستہ مل گیا۔ ان حالات میں بغداد کی تباہی کا ذمہ دار صرف ابن علقی کو ٹھہرانا اور الناصرلدین اللہ کیتحریک اور حنفی و شافعی نزاع کو نظر انداز کر دینا حقیقت پر پردہ ڈالنا ہے ۔ جب کہ بغداد کی تباہی کا پیش خیمہ یہی خراسان کی فتح تھی کہ جس کا سبب وہاں کے حنفی باشندے تھے ۔ چنانچہ اسی فتح کی وجہ سے اس کا اتنا حوصلہ ہوا کہ وہ مسلمانوں کے مرکز پر حملہ آور ہو ورنہ محض ایک شخص کے پیغام کا نتیجہ یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ بغداد ایسے قدیم مرکز پر یلغار کرتا ہو پہنچ جاتا کہ جس کی سطوت و ہیت کی دھاک ایک دنیا کے دلوں پر بیٹھی ہوئی تھی:۔

(۳) ذاتی طور پر عالم الغیب ہونا اور چیز ہے اور اللہ کی طرف سے کسی مر پر مطلع ہو کر خبر دینا دوسری چیز ہے انبیاء و اولیاء کو جو مستقبل کا علم ہوتا ہے وہ اللہ ہی کے سکھانے اور بتانے سے ہوتا ہے اگر کوئی ذاتی طور پر مستقبل میں وقوع پذیر ہونے والی چیزوں سے آگاہ ہے تو وہ صرف اللہ سبحانہ‘ ہے ۔ البتہ وہ جس کو چاہتا ہے امور غیب پر مطلع کر دیتا ہے چنانچہ اس کا ارشاد ہے ۔

وہی غیب کا جاننے والا ہے اور اپنی غیب کی بات کسی پر ظاہر نہیں کرتا، مگر جس پیغمبر کو وہ پسند فرمائے ۔

یونہی امیر الموٴمنین[ع]کو بھی مستقبل کا علم تعلیم رسول و القائے ربانی سے حاصل ہوتا تھا جس کے لیے آپ کا یہ کلام شاہد ہے البتہ کبھی بعض چیزوں پر مطلع کرنے کی مصلحت یا ضرورت نہیں ہوتی تو انہیں پردہ خفاء میں رہنے دیا جاتا ہے جن پر کوئی آگاہ نہیں ہو سکتا، جیسا کہ قدرت کاارشاد ہے ۔

بیشک قیامت کا علم اللہ ہی کے پاس ہے اور وہی مینہ برساتا ہے اور شکموں میں جو کچھ ہے وہ جانتا ہے اورکوئی شخص یہ نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کرے گا اورنہ کوئی شخص یہ جانتا ہے کہ وہ کس سر زمین پر مرے گا۔ بیشک اللہ (ان چیزوں سے ) آگاہ اور باخبر ہے۔

خطبہ 126: بصرہ میں برپا ہونے والے فتنوں ،حبشیوں کے سردار کی تباہ کاریوں اور تاتاریوں کے حملوں کے بارے میں فرمایا