Danishkadah Danishkadah Danishkadah
حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے فرمایا، خطبۃ الوداع میں فرمایا: جس کی آنکھوں سے آنسوخوفِ خدا میں بہنے لگیں، تو اس کے ہر آنسو کے بدلے کوہِ احد کے برابر اجر اس کے میزانِ اعمال میں رکھ دیا جائے گا۔ مستدرک الوسائل حدیث 12870

نہج البلاغہ خطبات

خطبہ 117: جب اپنے ساتھیوں کو دعوت جہاد دی اوروہ خاموش رہے تو فرمایا

امیر الموٴمنین علیہ السلام نے لوگوں کو جمع کیا اور انہیں جہاد پر آمادہ کرنا چاہا تو وہ لگو دیر تک چپ رہے ، تو آپ ع نے فرمایا ، تمہیں کیا ہو گیا ہے ۔ کیا تم گونگے ہو گئے ہو؟ تو ایک گروہ نے کہا کہ اے امیر الموٴمنین[ع]اگر آپ چلیں ، تو ہم بھی آپ کے ہمراہ چلیں گے ۔ جس پر حضرت نے فرمایا:۔

تمہیں کیا ہو گیا ہے ۔ تمہیں ہدایت کی توفیق نہ ہو اور نہ سیدھی راہ دیکھنا نصیب ہو ۔ کیا ایسے حالات میں مَیں ہی نکلوں ۔ اس وقت تو تمہارے جوانمردوں اور طاقتوروں میں سے جس شخص کو میں پسند کروں اسے جانا چاہیئے میرے لیے مناسب نہیں کہ میں لشکر، شہر ، بیت المال ، زمین کے خراج کی فراہمی ، مسلمانوں کے مقدمات کا تصفیہ اور مطالبہ کرنے والوں کے حقوق کی دیکھ بھال چھوڑ دوں اور لشکر لیے ہوئے دوسرے لشکر کے پیچھے نکل کھڑا ہوں ۔ اور جس طرح خالی ترکش میں بے پیکاں کا تیر ہلتا جلتا ہے جنبش کھاتا رہوں ۔ میں چکی کے اندر کا وہ قطب ہوں کہ جس پر وہ گھومتی ہے جب تک میں اپنی جگہ پر ٹھہرا رہوں اور اگر میں نے اپنا مقام چھوڑ دیا، تو اس کے گھومنے کا درئرہ متزلزل ہو جائے گا۔ اور اس کا نیچے والا پتھر بھی بے ٹھکانے ہو جائے گا۔ اور اس کا نیچے والا پتھر بھی بے ٹھکانے ہو جائے گا۔ خدا کی قسم!یہ بت بُرا مشورہ ہے ۔ قسم بخدا ! اگر دشمن کا مقابلہ کرنے سے مجھے شہادت کی امید نہ ہو جب کہ وہ مقابلہ میرے لیے مقدر ہو چکا ہو، تو میں اپنی سوارویوں کی و(سوار ہونے کے لیے) قریب کر لیتا اور تمہیں چھوڑ چھاڑ کر نکل جاتا اور جب تک جنوبی و شمالی ہوائیں چلتی رہتیں ، تمہیں کبھی طلب نہ کرتا ۔ تمہارے شمار میں زیادہ ہونے سے کیا فائدہ جب کہ تم ایک دل نہیں ہو پاتے ۔ میں نے تمہیں صحیح راستے پر لگایا ہے کہ جس میں ایسا ہی شخص تباہ و برباد ہو گا جو خود اپنے لیے ہلاکت کا سامان کئے بیٹھا ہو؟ اور جو اس راہ پر جما رہے گا وہ جنت کی طرف ، اور جو پھسل جائے گا۔ وہ دوزخ کی جانب بڑھے گا۔

(۱) جنگ صفین کے بعد جب معاویہ کی فوجوں نے آپ[ع]کے مختلف علاقوں پر حملے شروع کر دیے تو ان کی روک تھام کے لیے آپ نے عراقیوں سے کہا لیکن انہوں نے ٹالنے کے لیے یہ عذر تراشا کہ اگر آپ فوج فکے ہمراہ چلیں تو ہم بھی چلنے کو تیار ہیں ۔ جس پر حضرت نے یہ خطبہ ارشا د فرمایا ، اور اپنی مجبوریوں کو واضح کیا کہ اگر میں چلوں ، تو مملکت کا نظم و ضبط برقرار نہیں رہ سکتا اور اس عالم میں کہ دشمن کے حملے چاروں طرف سے شروع ہو چکے ہیں ۔ مرکز کو خالی رکھنا مصلحت کے خلاف ہے ۔ مگر ان لوگوں سے کیا تو توقع کی جا سکتی تھی جنہوں نے صفین کی فتح کو شکست سے بدل کر ان حملون کا دروازہ کھول دیا ہو ۔“