Danishkadah Danishkadah Danishkadah
حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے فرمایا، اے تاجروں کے گروہ! کاروبارِ تجارت ایسی چیز ہے جس میں بیکار باتیں بھی آجاتی ہیں اور قسمیں بھی، لہٰذا اپنے تجارتی مال میں سے صدقہ دے دیا کرو۔ کنزالعمال حدیث 9439

نہج البلاغہ خطبات

ہر چیز اس کے سامنے عاجز و سرنگوں اور ہر شے اس کے سہارے وابستہ ہے وہ ہر فقیر کا سرمایہ ہر ذلیل کی آبرو ، ہر کمزور کی توانائی اور ہر مظلوم کی پناہ گا ہے ۔ جو کہے، اس کی بات بھی وہ سنتا ہے ، اور جو چپ رہے اس کے بھید سے بھی وہ آگا ہے۔ جو زندہ ہے اس کے رزق کا ذمہ اس پر ہے ، اور جو مرجائے اس کا پلٹنا اسی کی طرف ہے ۔ (اے اللہ) آنکھوں نے تجھے دیکھا نہیں کہ تیری خبر دے سکیں ، بلکہ تو تو اس وصف کرنے والی مخلوق سے پہلے موجود تھا۔ تو نے (تنہائی کی) وحشتوں سے اکتا کر مخلوق کو پیدا نہیں کیااور نہ اپنے کسی فائدے کے پیش نظر ان سے اعمال کرائے ، جسے تو گرفت میں لانا چاہے وہ تجھ سے آگے بڑھ کر جا نہیں سکتا، اور سجے تو نے گرفت میں لے لیا پھر وہ نکل نہیں سکتا۔ جو تری مکالفت کرتا ہے ۔ ایسا نہیں کہ وہ تیری فرمانروائی کو نقصان پہنچائے اور جر تیری اطاعت کرتا ہے ، وہ ملک (کی وستوں ) کو بڑھا نہیں دیتا اور جو تیری قضاؤ قدر پر بگڑا اتھے وہ تیرے امر کو رد نہیں کر سکتا اور جو تیرے حکم سے منہ مور لے ، وہ تجھ سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔ ہر چھپی ہوئی چیز تیرے لیے ظاہر اور ہر غیب تیرے سامنے بے نقاب ہے ۔ تو ابدی ہے جس کی کوئی حد نہیں اور تو ہی (سب کی) منزل منتہاہے کہ جس سے کوئی گریز کی راہ ن ہیں اور تو ہی وعدہ گاہ ہے کہ تجھ سے چھٹکارا پانے کی کوئی جگہ نہیں ، مگر تیری ہی ذات ، ہر راہ چلنے ولا تیرے قبضہ میں ہے اور ہر ذی روح کی بازگشت تیری طرف ہے۔ سبحان اللہ ! یہ تیری کائنات جو ہم دیکھ رہے ہیں ۔ کتنی عظیم الشان ہے ۔ اور تیری قدرت کے سامنے ان کی عظمت کتنی کم ہے ۔ اور تیری پادشاہت جو ہماری نظروں کے سامنے ہے ، کتنی پر شکوہ ہے ۔ لیکن تیری اس سلطنت کے مقابلہ میں جو ہماری نگاہوں سے اوجھل ہے کتنی حقیر ہے ۔ اور دنیا میں یہ تیری نعمتیں کتنی کامل و ہمہ گیر ہیں مگر آخرت کی نعمتوں کے سامنے وہ کتنی مختصر ہیں ۔

اسی خطبہ کا ایک جزُیہ ہے :۔

تو نے فرشتوں کو آمسانوں میں بسایا ، اور انہیں زمین کی سطح سے بلند رکھا۔ وہ سب مخلوق سے زیادہ تیری معرفت رکھتے ہیں ، اور سب سے زیادہ تجھ سے ڈرتےہیں ۔ اور سب سے زیادہ تیرے مقرب ہیں ، نہ وہ صلبوں میں ٹھہرے نہ شکموں میں رکھے گئے، نہ ذلیل پانی (نطفہ) سے ان کی پیدائش ہوئی ، اور نہ زمانہ کے حوادث نے انہیں منتشر کیا وہ تیرے قرب میں اپنے مقام و منزلت کی بلندی اور تیرے بارے میں خیالات کی یکسوئی اور تیری عبادت کی فراوانی اور تیرے احکام میں عدم غفلت کے باوجود اگر تیرے راز ہائے قدرت کی اس تہہ تک پہنچ جائیں کہ جو ان سے پوشیدہ ہے ، تو وہ اپنے اعمال کو بہت ہی حقیر سمجھیں گے اور اپنے نفسوں پر حرف گیری کریں گے اور یہ جان لیں گے کہ انہوں نے تیری عبادت کا حق ادا نہیں کیااور نہ کما حقہ تیری اطاعت کی ہے ۔ میں خالق و معبود جانتے ہوئے تیری تسبیح کرتا ہوں ۔ تیرے اس بہترین سلوک کی بنا پر ، جو تیرا اپنے مخلوقات کے ساتھ ہے ۔ تو نے ایک ایسا گھر(جنت) بنایا ہے کہ جس میں مہمانی کے لیے کھانے پینے کی چیزیں ، حوریں ، غلمان ، محل ، نہریں ، کھیت اور پھل مہیا کئے ہیں ۔ پھر تو نے ان نعمتوں کی طرف دعوت دینے والا بھیجا، مگر نہ انہوں نے بلانے والے کی آواز پر لبیک کہی، اور نہ ان چیزوں کی طرف راغب ہوئے جن کی تو نے رغبت پائی تھی اور نہ ان چیزوں کے مشتاق ہوئے جن کا تو نے اشتیاق دلایا تھا وہ تو اسی مردار دنیا پر ٹوٹ پڑے کہ جسے نوچ کھانے میں اپنی عزت آبرو گنوار ہے تھے اور اس کی چاہت پر یکا کر لیا تھا، جو شخص کسی شے سے بے تحاشا محبت کرتا ہے ، تو وہ اس کی آنکھوں کو اندھا ، دل کو مریض کر دیتی ہے ۔ وہ دیکھتا ہے تو بیمار آنکھوں سے سنتا ہے ۔ تو نہ سننے والے کانوں سے شہوتوں نے اس کی عقل کا دامن چاک کر دیا ہے ، اور دنیا نے اس کے دل کو مردہ بنا دیا ہے ۔ اور اس کا نفس اس پر مرمٹا ہے یہ دنیا کا اور ان لوگوں کا جن کے پاس کچھ بھی وہ دنیا ہے بندہ و غلام بن گیا ہے ، جدھر و ہ مڑتی ہے ، ادھر یہ مڑتا ہے ، جدھر اس کا رخ ہوتا ہے ۔ ادھر ہی اس کا رخ ہوتا ہے ۔ نہ اللہ کی طرف سے کسی روکنے والے کے کہنے سننے سے وہ رکتا ہے ، اور نہ ہی اس کے کسی وعظ و پند کرنے والے کی نصیحت مانتا ہے ۔ حالانکہ وہ ان لوگوں کو دیکھتا ہے ۔ کہ جنہیں عین غفلت کی حالت میں وہاں پر جکڑ لیا گیا کہ جہاں نہ تدارک کی گنجائش اور نہ دنیا کی طرف پلٹنے کا موقعہ ہوتا ہے ۔ اور کس طرح وہ چیزیں ان پر ٹوٹ پڑیں کہ جن سے وہ بے خبر تھے ، اور کسی طرح اس دنیا سے جدائی (کی گھڑی سامنے) آگئی کہ جس سے پوری طرح مطمئن تھے ، اور کیونکر آخرت کی ان چیزوں تک پہنچ گئے کہ جن کی انہیں خبر دی گئی تھی اب جو مصیبتیں ان پر ٹوٹ پڑی ہیں ۔ انہیں بیان نہیں کیا جا سکتا، موت کی سختیاں اور دنیا چھوڑنے کی حسرتیں مل کر انہیں گھیر لیتی ہیں ۔ چنانچہ ان کے ہاتھ پیر ڈھیلے پڑجاتے ہیں اور رنگتیں بدل جاتی ہیں ۔ پھر ان (کے اعضا) میں موت کی دخل اندازیاں بڑھ جاتی ہیں ۔ کوئی ایسا ہوتا ہے کہ پہلے ہی اس کی زبان بند ہو جاتی ہے ۔ در صوتیکہ اس کی عقل درست اور ہوش و حواس باقی ہوتے ہیں ۔ وہ اپنے گھر والوں کے سامنے پڑا ہو ا اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے اور اپنے کانوں سے سنتا ہے اور ان چیزوں کو سوچتا ہے کہ جن میں اس نے اپنی عمر گنوادی ہے اور اپنا زمانہ گزار دیا ہے اور اپنے جمع کیے ہوئے مال و متاع کو یاد کرتا ہے کہ جس کے طلب کرنے میں (جائز و ناجائز سے) آنکھیں بند کر لی تھیں ، اور جسے صاف اور مشکوک ہر طرح کی جگہوں سے حاصل کیا تھا۔ اس کا وبال اپنے سر لے کر اسے چھوڑ دینے کی تیاری کرنے لگا وہ مال (اب) اس کے پچھلوں کے لیے رہ جائے گا کہ وہ اس سے عیز و آرام کریں ، اور گلچھڑے اڑائیں ۔ اس طرح وہ دوسروں کو تو بغیر ہاتھ پیر ہلائے یونہی مل گیا، لیکن اس کا بوجھ اس کی پیٹھ پر رہا ۔ اور یہ اس مال کی وجہ سے ایسا گروی ہوا ہے کہ بس اپنے کو چھڑا نہیں سکتا مرنے کے وقت یہ حقیقت جو کھل کر اس کے سامنے آگئی تو ندامت سے وہ اپنے ہاتھ کاٹنے لگتا ہے اور عمر بھرجن چیزوں کا طلب گاررہا تھا، اب ان سے کنارہ ڈھونڈتا ہے اور یہ تمنا کرتا ہے کہ جو اس مال کی وجہ سے اس پر رشک و حسد کیا کرتے تھے (کاش کہ) وہی اس مال کو سمیٹتے نہ وہ اب موت کے تصرفات اس ک جسم میں اور بڑھے یہاں تک کہ زبان کے ساتھ ساتھ کانوں پر بھی موت چھا گئی ۔

گھر والوں کے سامنے اس کی یہ حالت ہوتی ہے کہ نہ زبان سے بول سکتا ہے نہ کانوں سے سن سکتا ہے آنکھیں گھما گھما رک ان کے چہروں کو تکتا ہے ۔ ان کی زبانوں کی جنبشوں کو دیکھتا ہے ۔ لیکن بات چیت کی آوازیں نہیں سنُ پاتا ۔ پھر اس سے موت اور لپٹ گئی کہ اس کی آنکھوں کو بھی بند کر دیا ۔ جس طرح اس کے کانوں کو بند کیا تھا اور روح اس کے جسم سے مفارقت کر گئی ۔ اب وہ گھر والوں کے سامنے ایک مردار کی صورت میں پڑا ہوا ہے کہ اس کی طرف سے انہیں وحشت ہوتی ہے ، اور اس کے پاس پھٹکنے سے دور بھاگتے ہیں ۔ وہ نہ رونے والے کی کچھ مدد کر سکتا ہے ، نہ پکارنے والے کو جواب دے سکتا ہے ۔ پھر اسے اٹھا کر زمین میں جہاں اس کی قبر بننا ہے ، لے جاتے ہیں ور اسے اس کے حوالے کر دیتے ہیں کہ اب وہ جانے اور اس کا کام، اور اس کی ملاقات سے ہمیشہ کے لیے منہ موڑ لیتے ہیں ۔ یہاں تک کہ نوشتہٴ (تقدیر) اپنی میعاد کو اور حکمِ الٰہی اپنی مقررہ حد کو پہنچ جائے گا اور پچھلوں کو اگلوں کے ساتھ ملا دیا جائے گا، اور فرمان قضا پھر سرے سے پیدا کرنے کا ارادہ لے کر آئے گا، تو وہ آسمانوں کو جنبش میں لائے گا۔ اور انہیں پھاڑ دے گا۔ اور زمین کو ہلا ڈالے گا۔ اور انہیں پھاڑ دے گا۔ اور زمین کو ہلا ڈالے گا، اور اسکی بنیادیں کھوکھلی کر دے گا اور پہاڑوں کو جڑ بنیاد سے اکھاڑ دے گا۔ اور وہ اس کے جلال کی ہیبت اور قہر و غلبہ کی دہشت سے آپس میں ٹکرانے لگیں گے ۔ وہ زمین کے اندر سے سب کو نکالے گا ۔ اور انہیں سڑگل جانے کے بعد پھر از سر نوتر و تازہ کرے گا اور متفرق و پراگندہ ہونے کے بعد پھر یکجا کر دے گا پھر ان کے چھپے ہوئے اعمال اور پوشیدہ کار گزاریوں کے متعلق پوچھ گچھ کرنے کے لیے انہیں جدا جدا کرے گا اور انہیں دو حصوں میں بانٹ دے گا۔ ایک کو وہ انعام و اکرام دے گا، اور ایک سے انتقام لے گا جو فرمانبرادر تھے انہیں جزا دے گا۔ کہ وہ اس کے جو ارِ رحمت میں رہیں اور اپنے گھر میں انہیں ہمیشہ کے لیے ٹھہرا دے گا کہ جہاں اترنے والے پھر کوچ نہیں کیا کرتے اور نہ ان کے حالات ادلتے بدلتے رہتے ہیں ۔ اور نہ انہیں گھڑی گھڑی خوف ستا تا ہے ، نہ بیماریاں ان پر آتی ہیں ، نہ انہیں خطرات درپیش ہوتے ہیں اور نہ انہیں سفرایک جگہ سے دوسری جگہ لیے پھرتے ہیں ، اور جو نافرمان ہوں گے انہیں ایک برے گھر میں پھینکے گا، اور ان کے ہاتھ گردن سے (کس کر) باندھ دے گا اوران کی پیشانیوں پر لٹکنے والے بالوں کو قدموں سے جکڑ دے گا۔ اور انہیں تار کول کی قمیضیں اور آگے سے قطع کیے ہوئے کپڑے پہنائے گا(یعنی ان پر تیل چھڑک کر آگ میں جھونک دے گا) وہ ایسے عذاب میں ہوں گے کہ جس کی تپش بڑی سخت ہوگی ، اور ایسی جگہ میں ہوں گے کہ جہاں ان پر دروازے بند کر دیئے جائیں گے ، اور ایسی آگے میں ہوں گے کہ جس میں تیز شرارے ، بھڑکنے کی آوازیں ، اتھتی ہوئی لپتیں اور ہولناک چیخیں ہوں گی۔ اس میں ٹھہرنے والا نکل نہ سکے گا۔ اور نہ ہی اس کے قیدیوں کو فدیہ دے کر چھڑا یا جاسکتا ہے اور نہ ہی ان کی بیڑیاں ٹوٹ سکتی ہیں ۔ اس گھر کی کوئی مدّت مقرر نہیں کہ اس کے بعد مٹ مٹاجائے۔ نہ رہنے والوں کے لیے کوئی مقررہ میعاد ہے کہ وہ پوری ہو جائے (تو پھر چھوڑ دیئے جائیں ۔):۔

اسی خطبہ کا یہ جز نبی [ص] کے متعلق ہے :۔

انہوں نے اس دنیا کو ڈلیل و خوار سمجھا اور پست و حقیر جانا اور جانتے تھے کہ اللہ نے ان کی شان کو بالا تر سمجھتے ہوئے دنیا کا رخ ان سے موڑ ا ہے ، اور گھٹیا سمجھتے ہوئے دوسروں کے لیے اس کا دامن پھیلا دیا ہے ۔ لہذا آپ [ص] نے دنیا سے دل ہٹا لیا اور اس کی یاد اپنے نفس سے مٹاڈالی اور یہ چاتے رہے کہ اس کی سچ دھج ان کی نظروں سے اوجھل رہے کہ نہ اس سے عمدہ عمدہ لباس حاصل کریں ، اور نہ اس میں قیام کی آس لگائیں انہوں نے عذر تمام کرتے ہوئے اپنے پروردگار کا پیغام پہنچادیا اور ڈراتے ہوئے امت کو پندو نصیحت کی ، اور خوشخبری سناتے ہوئے جنت کی طرف دعوت دی اور اشباہ کرتے ہوئے دوزخ سے خوف دلایا ۔

ہم نبوت کا شجرہ ، رسالت کی منزل، ملائکہ کی فرودگاہ علم کا معدن اور حکمت کا سر چشمہ ہیں ۔ ہماری نصرت کرنے والا اور ہم سے محبت کرنے والا رحمت کے لیے چشم براہ ہے اور ہم سے دشمنی و عناد رکھنے والے کو زہر (الٰہی) کا منتظر رہنا چاہئے۔

خطبہ 107: خداوند عالم کی عظمت ،ملائکہ کی رفعت ،نزع کی کیفیت اور آخرت کا ذکر فرمایا