Danishkadah Danishkadah Danishkadah
حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے فرمایا، زیادہ کھانے پینے سے اپنے دلوں کو مردہ نہ کرو، کیونکہ اس سے دل ایسے مردہ ہوجاتے ہیں جیسے زیادہ پانی سے کھیتی مرجاتی ہے تنبیہ الخواطر ج1ص46، مستدرک الوسائل حدیث 19619

نہج البلاغہ خطبات

خطبہ 106: پیغمبر کی توصیف اور لوگوں کے گوناگون حالات کے سلسلہ میں فرمایا

یہ ان خطبوں میں سے ہے جن میں زمانہ کے حوادث دفتن کر تذکرہ ہے :۔

تمام حمد اس اللہ کے لیے ہے جو اپنے مخلوقات کی وجہ سے مخلوقات کے سامنے عیاں ہے اور اپنی ہمت و برہان کے ذریعہ سے دلوں میں نمایاں ہے اور اپنی ہمت و برہان کے ذریعہ سے دلوں میں نمایاں ہے ۔ اس نے بغیر سوچ بچا ر میں پڑے مخلوق کو پیدا کیا۔ اس لیے کہ غور و فکر اس کے مناسب ہوا کرتی ہے ۔ جو دل و دماغ (جیسے اعضاء ) رکھتا ہو ۔ اور وہ دل و دماغ کی احتیاج سے بری ہے اس کا علم غیب کے پردوں میں سرایت کئے ہوئے ہے اور عقیدوں کی گہرائیوں کی تہ تک اترا ہو اہے :۔

اس خطبہ کا یہ جُز نبی [ص] کے متعلق ہے :۔

انہیں انبیاء کے شجرہ ، روشنی کے مرکز (آل ابراہیم ) بلندی کی جبیں (قریش ) بطحاء کی ناف (مکہ ) اور اندھیرے کے چراغوں اور حکمت کے سر چشموں سے منتخب کیا۔

اس خطبہ کا یہ حصہ بھی رسوُل [ص] ہی سے متعلق ہے ۔

وہ ایک طبیب تھے جو اپنی حکمت و طب کے لیے ہوئے چکر لگا رہا ہو۔ اس نے اپنے مرہم ٹھیک ٹھاک کر لیے ہوں اور داغنے کے آلات تپالیے ہوں ۔ وہ اندھے دلوں بہرے کانوں ، گونگی زبانوں ( کے علاج معالجہ ) میں جہاں ضرورت ہوتی ہے ، ان چیزوں کو استعمال میں لاتا ہو، اور دوا لیے غفلت زدہ اور حیرانی و پریشانی کے مارے ہوؤں کی کھوج میں لگا رہتا ہو۔ مگر لوگوں نے نہ تو حکمت کی تنویروں سے ضیاؤ نور کو حاصل کیا ، اور نہ علوم درخشاں کے چقماق کو رگر کر نورانی شعلے پیدا کئے وہ اس معامہ میں چرنے والے حیوانوں اور سخت پتھروں کے مانند ہیں ۔ اہل بسیرت کے لیے چھپی ہوئی چیزیں ظاہر ہو گئی ہیں اور بھٹکنے والوں کے لیے حق کی راہ وضح ہو گئی اور آنے والی ساعت نے اپنے چہرے سے نقاب الٹ دی اور غور سے دیکھنے والوں کے لیے علامتیں ظاہر ہو چکی ہیں لیکن تمہیں میں دیکھتا ہوں کہ پیکر بے روح اور روحِ بے قالب بنے ہوئے ہو، جعابد بنے پھرتے ہوبغیر صلاح و تقویٰ کے اور تاجر بنے وہئے بگیر فائدوں کے بیدار ہو مگر سور ہے ہو، حاضر ہو مگر ایسے جیسے غائب ہوں دیکھنے والے ہو مگر اندھے سننے والے ہو مگر بہرے گونگے گمراہی کا بولنے والی ہو مگر اپنی سواریوں جھنڈہ تو اپنے مرکز پرچم چکا ہے، اور اس کی شاخیں (ہرسوُ) پھیل گئی ہیں ۔ تمہیں (تباہ کرنے کے لیے) اپنے پیمانوں میں تول رہا ہے ، اور اپنے ہاتھوں سے تمہیں ادھر ادھر بھٹکا رہا ہے اس کا پیشتر و ملت (اسلام) سے خارج ہے اور گمراہی پر ڈٹا کھڑا ہے ۔ اس دن تم میں سے کوئی نہیں بچے گا۔ مگر کچھ گرے پڑے لوگ جیسے دیگ کی کھُرچن یا تھیلے کے جھاڑنے سے گرے ہوئے ریزے ۔ وہ گمراہی تمہیں اس طرح مسل ڈالے کی جس طرح چمڑے کو مسلادجاتا ہے اور اس طرح روندے گی ۔ جیسے کٹی ہوئی زراعت کو روندا جاتا ہے اور مصیبت و ابتدا کے لیے ) تم میں سے مومن (کامل) کو اس طرح چن لے گی جس طرح پرندے باریک دانوں میں سے موٹے دانہ کو چن لیتا ہے ۔ یہ (غلط) روشیں تمہیں کہا ں لیے جارہی ہیں اور یہ اندھیا ریاں تمہیں کن پریشانیوں میں ڈال رہی ہیں اور جھوٹی امیدیں تمہیں کا ہے کہ فریب دے رہی ہیں کہاں سے لائے جاتے ہو اور کدھر پلٹائے جاتے ہو؟ ہر میعاد کا ایک نوشہ ہوتا ہے اور ہر غائب کو پلٹ کر آتا ہے اپنے اپنے عالم بانی سے سنو۔ اپنے دلوں کو حاضر کرو ، اگر تمہیں پکارے تو جاگ اٹھو قوم کے نمائندہ کو تو اپنی قوم سے سچ ہی بولنا چاہیے اور اپنی پریشان خاطری میں یکسوئی پیدا کرنا اور اپنے ذہن کو حاضر رکھنا چاہئے چنانچہ اس نے حقیقت کو اس طرح واشگاف کر دیا ہے جس طرح دھاگے میں پروئے جانے والے )مہرہ کو چیر دیا جاتا ہے اور اس طرح اسے (تہہ سے ) چھیل ڈالا ہے ۔ جیسے درخت سے گوند ۔ باوجود اس کے باطل پھر اپنے مرکز پر آگیا اور جہالت اپنی سواریوں پر چڑھ بیٹھی ۔ اس کی طغیانیاں بڑھ گئی ہیں ۔ اور حق کی آواز دب گئی ہے اور زمانہ نے پھاڑ کھانے والے درندے کی طرح حملہ کر دیا ہے ۔ اور باطل کا اونٹ چپ رہنے کے بعد پھر بلبلانے لگا ہے ۔ لوگوں نے فسق و فجور پر آپس میں بھائی چارہ کر لیا ہے ۔ اور دین کے سلسلہ میں ان میں پھوٹ پری ہوئی ہے ۔ جھوٹ پر تو ایک دوسرے سے یارانہ گانٹھ رکھا ہے اور سچ کے معاملہ میں باہم کد رکھتے ہیں ۔ (ایسے موقعہ پر) بیٹا (آنکھوں کی ٹھنڈک ہونے کے بجائے ) غیظ و غضب کا سبب ہوگا۔ اور بارشیں گرمی و تپش کا کمینے پھیل جائیں گے ۔ اور شرف گھٹتے جائیں گے اس زمانہ کے لوگ بھڑیئے ہوں گے اور حکمران درندے درمیانی طبقہ کے لوگ کھاپی کر مست رہنےوالے اور فقیرو تادار بالکل مردہ ۔ سچائی دب جائے گی اور جھوٹ ابھر آئے گا محبت کی لفظیں ) صرف زبانوں پر آئیں گے اور لوگ دلوں میں ایک دوسرے سے کشیدہ رہیں گے نسب کا معیار زنا ہوگا ۔ عفت و پاکدامنی نرارلی چیز سمجھی جائے گی۔ اور اسلام کا لبادہ پوستیں کی طرح الٹا اوڑھا جائے گا۔