Danishkadah Danishkadah Danishkadah
حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے فرمایا، جو حسن ؑ اور حسین ؑ کو دوست رکھے گا وہ مجھے دوست رکھے گا اور جو ان سے دشمنی رکھے گا وہ مجھ سے دشمنی برتے گا الامالی للطوسی ؒ مجلس9، بحارالانوارکتاب تاریخ فاطمۃ ؑوالحسن ؑ والحسین ؑ باب12

محرم الحرام کے بارے میں اہم سوال و جواب

عاشورہ اورفارسی ادب

سوا ل ۶۷: ا ما م حسینؑ کی نہضت و شخصیت کی فا رسی ادب پر تاثیر کے بارے میں کچھ بتلائیں ؟
جواب: اس موضو ع کی مفصل تحقیق تو اس مقا لے کی گنجا ئش سے با ہر ہے، لہٰذا ہم یہاں اختصا ر کے ساتھ کچھ مطا لب ذکر کر تے ہیں ۔
قیا م اما م حسین علیہ السلام کا موضوع قرن سوم ( تیسری صد ی ہجر ی) کے درمیا ن میں فارسی ادب میں وارد ہو ا ، البتہ ابتدا ء میں با قا عد ہ نہیں تھا بلکہ صرف تمثیل اور اشا روں کے ذریعے اما م حسینؑ اور آپ کے اصحا ب کے مقتل کو ذکر کیا جا تاتھا۔
ایک دو صد یاں بعد ( تقریبا ً پا نچویں چھٹی صدی ہجری میں ) سنا ئی نے شہادت امام حسینؑ کو وضاحت سے پیش کیا ، پا نچو یں صدی کے بعد ( نا صر خسر و کے زما نے میں ) عاشورہ اور اما م حسینؑ کے بارے صرف اشا ر ۃ ذکر ملتا ہے ، لیکن مکمل طو ر پر جزئیات کے ساتھ تیموریوں کے دور سے شروع ہو ا اور صفو ی دور کہ جب تشیع کو رسمیت حاصل ہو ئی اور حکومتی نظا م بد لاتو شعرا ء نے باقاعدگی سے عا شورہ پر تو جہ کی۔ (۱)
صفوی دور سے پہلے کے شعرا ء میں سب سے زیا دہ جس نے موضو ع عا شورہ کو پیش کیا وہ ابن حسا م ہیں ، ان کے کلا م کا زیا دہ حصہ عاشورہ کے بارے میں ہے ، ان کے بعد بہت سے شعراء نے یہی روش اختیا ر کی، یہاں تک کہ قاجاری دور میں واقعہ عا شور ہ بالخصوص شاعری کا باقاعدہ باب بن گیا ۔یہاں ہم اختصا ر کے ساتھ ان کا ذکر کر تے
حماسہ حسینی درادبیات فارسی
صفوی دور سے پہلے کے شعرا ء میں سب سے زیا دہ جس نے موضو ع عا شورہ کو پیش کیا وہ ابن حسا م ہیں ، ان کے کلا م کا زیا دہ حصہ عاشورہ کے بارے میں ہے ، ان کے بعد بہت سے شعراء نے یہی روش اختیا ر کی، یہاں تک کہ قاجاری دور میں واقعہ عا شور ہ بالخصوص شاعری کا باقاعدہ باب بن گیا ۔یہاں ہم اختصا ر کے ساتھ ان کا ذکر کر تے ہیں ـ۔
ان شعر ا ء میں سے ایک مشہو رشاعر محتشم کا شانی ہیں کہ تقر یبا ً سب ان کے اشعا ر سے واقف ہیں جو انہوں نے عا شورہ اور اما م حسینؑ کے حوالے سے کہے ہیں ،و ہ صفو ی دور کے بڑے مشہور اور اہم شعراء میں سے تھے، انہوں نے اہل بیت کے تذکرے کے بارے میں اشعا ر کہے اور اس اسلو ب نے بڑ ی شہر ت پا ئی ، یہاں تک انہیں ایرا ن کے مشہو ر تر ین مر ثیہ کہنے والے شعر ا ء میں سے کہہ سکتے ہیں ـ۔
ان کا بارہ بند کا مشہور مرثیہ جو خلو ص و صفا سے تخلیق ہو ا، آج تک بے نظیر ہے ـ۔
باز این چہ شو رش است کہ در خلق عا لم است؟
باز این چہ و ستخیز عظیم است کز زمین
باز این چہ نوحہ و چہ عزا و چہ ماتم است؟
بی نفخ صور خاستہ تا عر ش اعظم است۔(۲)
دوسرے :زندیہ کے ابتدا ئی دور تیر ہویں صدی ہجری کے شا عر صبا حی بیگدلی ہیں ۔ انہوں نے کلیم کی پیر وی کر تے ہو ئے تر کیب بیت کی ہے اور مر ثیہ کہا ہے ۔
افتاد شامگہ بہ کنار افق نگران
گفتم محرم است و نمو د ازشفق ھلال
خور چون سر بریدہ این طشت ، واژگون
چو ن ناخنی کہ غمزدہ اَلا یدش ز خون۔(۳)
تیسرے: ملک الشعر ا ء محمد تقی بہا ر ( مشروطیت دور کے شا عر ) نے بھی سیدا لشہدا ء کا مرثیہ کہا ہے۔
ای فلک !آل علی رااز وطن آوارہ کردی
تاختی از وادی این غزالان حرم را
زآن سخن در کربلا شان بردی و بیچارہ کردی
پس اسیر پنجہ گر گا ن آد مخوار کردی۔(۴)
چوتھے : سید محمد حسین شہر یا ر ہم عصر بڑے شعراء میں سے تھے، اہل بیت کے بہت دلدادہ تھے ،آپ نے اما م حسینؑ اور شہدا ئے کربلا کے بارے میں بڑے مرثیے کہے ، شعر کہے اور گریہ کیا ، آپ نے کاروان کربلا ء کے نام سے جو غزل کہی اس کا مطلع یہ ہے۔
(۲)ڈاکٹر ابوا لقاسم رادفر ، چند مرثیہ از شاعران پارسی گو ، ص ۵۷
(۳)حوالہ سابق ،ص۶۹،۷۰،۷۱
(۴)حوالہ سابق ، ص ۱۱۶،۱۱۷
شیعیان دیگر ھوا ی نبنوا داردحسینؑ
دشمنا نش بی امان و دو ستانش بی وفا
روی دل باکا روان کربلا دارد حسینؑ
باکدامین سر کند ، مشکل دو تا دارد حسینؑ (۵)
اس موضو ع پر مزید گفتگو کا فی طو لا نی ہو جا ئے گی ،لہٰذا آپ در ج ذیل کتب کا مطالعہ کریں :
۱)مر ثیہ سر ائی عا شورا ء درا دبیات فا رسی ، مجلہ بصا ئر سال ۳ شما ر ہ ۲۴،
۲) جا یگا ہ شعر در تبیین فر ہنگ عا شورا ء ،نشریہ رہ تو شہ را ھیا ن نور ، ویژہ محرم الحرام ، نشر دفتر تبلیغات اسلامی ۱۳۷۵،
۳)مرثیہ پردا زی در ادبیات فا رسی ، نشر یہ سر و ش ، نشر صدا وسیما ۱۳۶۰،ش ۱۳۲
۴) نگا ہی بہ انقلاب کربلا در ادب فا رسی ، نشر یہ اطلاعات ۱۳۸۱/۱/۲۲
(۵)دیوان اشعار شہریار
چھٹا حصہ
تر بیتی اور نفسیا تی
علی زینتی