Danishkadah Danishkadah Danishkadah
حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے فرمایا، جس قوم نے زبانی لڑائی جھگڑے کو اپنایا وہ سیدھے راستے سے ہٹ گئی۔ بحارالانوار تتمہ ابواب العلم باب 17 حدیث25

محرم الحرام کے بارے میں اہم سوال و جواب

زیارت عا شورہ کی اہمیت

سو ال ۴۶ : زیارت عا شورہ کی اتنی زیاد ہ اہمیت کی کیا وجہ ہے اور اس کے فوا ئدکیا ہیں ؟
جو اب: سید الشہداء کی زیارت کے بارے کثر ت سے روا یات وا رد ہیں ۔ (۲)
خصو صاً زیا رت عا شورہ کے بارے میں اما م محمد باقر علیہ السلام اور اما م جعفر صادق علیہ السلام سے متعدد احا دیث نقل ہو ئی ہیں (۳)
اما م محمد با قر علیہ السلام نے یہ زیارت اپنے صحابی علقمہ بن محمد خضری کو تعلیم فر ما ئی۔ یہ زیارت چو نکہ ایک نظر یہ اختیا ر کرنے او ر فکر ی خطو ط پر مشتمل ہے لہٰذا عجیب اثرات رکھتی ہے، اگر اسے زیارتی متن کے طور پر پڑ ھا جا ئے تو اپنے مطا لب اور فکر ی رہنما ئی کی وجہ سے بڑ ی حسا سیت رکھتی ہے یہی وجہ ہے کہ ائمہ علیہم السلا م کی طرف سے اپنے اصحاب کو زیارت کی اس طرح کی تعلیم نے اس عمل میں زیاد ہ تعمیری پہلو پیدا کردیا،یہاں تک کہ معصومینؑکی طر ف سے بتلا ئے ہو ئے زیارت نامے جیسے زیارت جامعہ کبیرہ ، زیارت عاشورہ ، زیارت آل یسین اور زیارت نا حیہ انتہا ئی اعلیٰ علمی خزانوں پر مشتمل ہیں ، زیارت عا شورہ اما م محمد باقر علیہ السلام نے تعلیم فرمائی زیارت عاشورہ انفرادی، اجتما عی ، اورتعمیری اثرات،تشیع کے اعتقا دی و فکر ی نظریات اور خط انحراف کی نشاندہی پرمشتمل ہونے کی وجہ سے ایک خاص اہمیت کی حامل ہے ۔ اس زیارت کی بعض تعلیمات و خصوصیات در ج ذیل ہیں :
۱)اہل بیت علیہم السلا م کے ساتھ معنو ی تعلق قائم کر نا اور ا ن کی محبت کوفروغ دینا،یہ محبت باعث بنتی ہے کہ زا ئر ان ہستیوں کو اپنا اسو ہ و نمو نہ عمل بنا ئے اور ان کے سا تھ فکری و عملی یک سوئی پیدا کر نے کی کوشش کر ے ،زیا رت کے بعض جملوں میں اس طرح ہے کہ اس کی پوری زند گی اور اس کی مو ت ان جیسی ہو :اللھم اجعل محیای محیا محمد و آل محمد ومماتی مما ت محمد وآل محمد ۔
چو نکہ یہ محبت خدا وند کی خاطر ہے اور اہل بیتؑچو نکہ الٰہی ہیں اور اس کی طرف منسوب ہیں خدا کے محبو ب ہیں ، لہٰذایہ تقرب خدا کا ذریعہ قرار پاتے ہیں اس زیارت میں یوں آیا ہے ـ : اللھم انی اتقرب الیک بالموالا ۃ لنبیک وال نبیکخد ا میں تیر ا قرب چاہتا ہوں تیر ے نبی اور آل نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ولا یت و محبت کے ذریعے ۔
۲) زائر میں ظلم ستیزی کی روح کاپیداہونا
اس ز یا رت میں ظالموں سے نفر ت اور ان پر لعنت کا تکر ار ہے جس سے زا ئر کے اندر ظلم سے نفر ت کا جذ بہ بیدا ر ہو تا ہے ، زا ئر ظالموں سے نفر ت و برائت کا اعلا ن کر کے اور حق و اہل بیتؑ کے پیر و کا روں کی محبت و دو ستی کا اظہا ر کر کے اپنے ایمان کے پائے مضبو ط کر تا ہے ،کیونکہ ایما ن تو صر ف راہ خدا میں محبت اور دشمنی ہی کا نا م ہے ھل ایما ن الا الحب والبغض، حقیقی مومن ظلم کے مقا بل غیر جا نبدا ر نہیں رہ سکتا ، ظا لم سے نفر ت و بغض کا اظہا ر کر تا ہے اور مظلو م کی حما یت و ہمرا ہی کا اعلا ن کر تا ہے ۔
یااعبدا للّٰہ انی سلم لم سالمکم وحر ب لمن حاربکم ۔
۳) انحرا فی خط سے دوری
اس زیار ت میں ظلم و فسا د کی جڑوں کی نشا ند ہی کی گئی ہے :
فلعن اللّٰہ امۃ اسست اساس الظلم والجو ر علیکم
اھل البیت والعن اللّٰہ امۃ دفعتکم عن مقامکم و
ازالتکم عن مرا تبکم التی رتبکم اللّٰہ فیھا۔
عا شور ہ کے دن جو ظلم ستم ہوااس کی جڑ یں تا ریخ میں پا ئی جا تی ہیں ۔یہ ظلم بھی اس ظلم کی کڑی ہے جس کی ابتدا ء خط خلافت کے انحرا ف سے ہو ئی تھی۔
۴) راہ ہدا یت کو اپنے لئے اسوہ ونمونہ عمل قرا ردینا
اس زیا رت میں ہے :
فاسئل اللّٰہ الذی اکرمنی بمعرفتکم و
معرفۃ اولیائکم ورزقنی البرا ئۃ من اعدا ئکم
ان یجعلنی معکم فی الدنیا والآخرۃ وان یثبت لی
عند کم قدم صد ق فی الدنیا والآخرۃ۔
زائرنے جب حق کو پہچان لیا ظلم اور ظالم کی معرفت حاصل کر لی اور ان سے دور ی اختیا ر کرلی تو اب اپنے آپ کو دنیا و آخر ت کی سعا دت کے راستے میں قرار دیتا ہے یعنی یہ ہدایت کے چراغ جو خدانے روشن فرمائے ہیں انہیں اپنے لئے نمونہ عمل قرار دیتا ہے اور ان کے ساتھ کو طلب کر تا ہے ۔
۵)راہ خدا میں شہادت و ایثا ر کا طلب کر نا