Danishkadah Danishkadah Danishkadah
حضرت امام علی نے فرمایا، انسان کی گفتگو سے اس کا وزن کیا جاتا ہے اور اس کے کاموں سے اس کی قیمت لگائی جاتی ہے۔ غررالحکم حدیث4023

محرم الحرام کے بارے میں اہم سوال و جواب

ثوا ب عزا داری

سوا ل ۴۵ : جن روا یا ت میں ا مام حسینؑ کی عزادا ری کا ثواب بے حدو حسا ب ذکر کیا گیا ہے کیا وہ صحیح ہیں ؟
جو اب : سیدا لشہدا ء اما م حسین علیہ السلام کی عزادا ری قر بت خدا کے سب سے بڑ ے اسباب میں سے ہے اور بہت زیادہ اجر و ثو ا ب رکھتی ہے اور اس با رے میں معتبر کتابوں میں بہت زیادہ روایات نقل ہو ئی ہیں اور کافی معتبر روایا ت ہیں ۔
اس بارے کچھ نکا ت پر تو جہ ضروری ہے :
۱) اس طرح کی روایا ت میں بھی صحیح و ضعیف پا ئی جا تی ہیں ۔
۲) اگر رو ایا ت میں کسی عمل پر ایک خاص اثر کو مر تب کیا گیا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ عمل اس اثر کے لئے علت تا مہ ہے بلکہ مرا د یہ ہے کہ اس عمل میں اس اثر کا تقاضا (اقتضاء ) موجود ہے وہ عمل علت تا مہ تب بنے گا کہ تما م مو ا نع دور ہو جائیں ایسی صورت میں وہ علت اس پر یقینی اثر کر ے گی ،لیکن اگر مقتضی کے سا منے ما نع پیش آجائے تووہ مقتضی اثر انداز نہیں ہو سکے گا ، مادی دنیا اورا سباب و مسببات کی دنیامیں بھی اسی طرح ہے مثلاً جب کہتے ہیں کہ آگ لکڑ ی کو جلا نے کا سبب ہے تو یہ مقتضی کے عنوا ن سے ہے یعنی جب تک دوسری شرائط جیسے آکسیجن کا ہو نا پوری نہ ہو جائیں اور جلا نے سے جو چیزیں ما نع ہوسکتی ہے جیسے لکڑی کا گیلا ہو نا ، یہ دور نہ ہو جا ئیں تو لکڑ ی کو آگ جلا نہیں سکے گی ۔ پس اگر گیلی لکڑ ی آگ میں ڈالی جائے اور اسے آگ نہ جلا ئے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہو گا کہ یہ بات غلط تھی کہ آگ لکڑی کو جلا تی ہے ، بلکہ یہ بات سچ تھی لیکن اس کی کچھ شر ائط تھیں ان کا پورا ضروری ہے ۔جیسے آکسیجن موجود ہو ، لکڑ ی میں جلنے سے مو انع جیسے گیلا ہو نا موجود نہ ہو اگر یہ سب شرا ئط پوری ہو جائیں تو علت تا مہ وجود پذ یر ہو جائے گی اب یقینا وحتما ً آگ لکڑی کو جلا ئے گی ، یہ اعمال جو ہم انجا م دیتے ہیں ان کی تاثیر بھی اس اثر کے حوالے سے اسی طرح ہے ( جز العلۃ ہے) اس کے لئے اور شرائط بھی چاہئیں لیکن وہ شر ائط کیا ہیں ان میں ہر ایک کی دخالت کس حد تک ہے کیا سب کی تا ثیر برابرہے یا فر ق کرتی ہے ایک مورد میں ایک عمل اثر اصلی عامل ہو دوسرے مو رد میں دوسرا عمل تا ثیر کا سسٹم کیا ہے۔دوسری چیزیں ان کے اثر کو مضبوط کرتی ہیں یاخود براہ راست اثرانداز ہیں ، یہ دسیوں سوالا ت ہیں کہ انسانی عقل اس حد تک نہیں ہے کہ ان کے بطور کامل صحیح جو ابا ت دے سکے اور انبیا ء الٰہی نے جو انسا نیت کو عظیم فائدے پہنچائے ہیں ان میں سے ایک فائدہ یہ ہے کہ اسے ایسے عوامل کے بارے میں بتلا یا ہے جنہیں بشر کی عقل خو د جا ن نہیں سکتی تھی ۔
دینی فرما ئشات میں فلسفی دقت و تحقیق سے جو بات پتہ چلتی ہے وہ یہ ہے کہ علت کا دائرہ مادی علتوں اور اسباب میں منحصر نہیں ہے بلکہ یہ ما دی اسبا ب و عوامل تو ما ورائے طبیعت کے تا بع ہیں ۔
۳) سیدا لشہداء کی عزا داری ، گریہ ، اور زیارت پر جو وسیع ثو ا ب ( کمیت و کیفیت کے لحا ظ سے) ذکر ہو اہے اس پر زیادہ تعجب نہیں ہونا چاہیے کیونکہ حضرت نے جس شجاعت ، دلیری ، ایثا ر ، توکل ، حریت کا مظا ہرہ کیا اور جو مصائب برداشت کئے ان کے مقابل یہ ثواب زیادہ نہیں ہے ، ذیل کے واقعہ پر توجہ کریں تاکہ اس مطلب کی مزید وضاحت ہو سکے۔
تشیع کی معروف شخصیت علا مہ بحرا لعلوم سامرا ء جا رہے تھے اور را ستے میں گر یہ امام حسینؑ پر ثواب ( تما م گناہوں کی بخشش ) کے با رے میں سوچتے جا رہے تھے اسی اثناء میں ایک عر ب جوایک سواری پر سوا ر تھا آپ کے پا س پہنچا اوراس نے آپ پر سلا م کیا اور پو چھا اے سید میں آپ کو فکر مند دیکھ رہا ہوں اگر کوئی علمی مسئلہ ہے تو مجھے بیا ن کریں شا ید میں کچھ کہہ سکوں ، سید بحر العلوم نے کہا :
’’میں یہ سو چ رہاتھا کہ کیسے خدا و ند اما م حسینؑ کے زائر ین اور گریہ کر نے والوں کو اتنا زیادہ ثو اب دیتا ہے جیسے یہ کہ زائر کو ہر قد م کے بد لے ایک حج اور ایک عمر ہ کا ثوا ب ملے گا ، ایک آنسو کے قطرے کے بدلے اس کے تما م صغیر ہ و کبیر ہ گنا ہ معاف کر دئیے جا ئیں گے ؟ تو اس عرب سوا ر نے کہا تعجب نہ کرو میں تمہیں ایک مثا ل دیتا ہوں جس سے تمہا ری مشکل حل ہوجا ئے گی ۔ ایک بادشا ہ شکا ر کر تے ہو ئے اپنے سا تھیوں سے جدا ہو گیا ،بیابان میں سے ایک خیمہ نظر آیا وہ وہاں خیمہ کے اندر داخل ہو اس نے ایک بڑ ھیا اپنے بیٹے کے ہمرا ہ خیمے کے اندر بیٹھی ہے ، ان کے پاس صرف ایک ہی بکر ی تھی جس سے ان کی روز ی چلتی تھی اس کے علا وہ کچھ نہ تھا ، اس بڑ ھیا نے وہی بکر ی ذبح کر دی اور بادشاہ کو کھا نا کھلا یا وہ بڑھیا اس بادشاہ کو جا نتی نہیں تھی صرف مہما ن کے احترام میں اس نے یہ کیا ، باد شا ہ رات وہیں رہا ، واپس آکر عمومی دربار میں اس نے یہ واقعہ ذکر کیا کہ کیسے میں اپنے لشکر سے جدا ہو گیا اور بھو کا پیاسا اس خیمے تک پہنچاوہ بڑ ھیا مجھے پہچانتی نہیں تھی، اس نے اپنا پو را سرمایہ یعنی بکری میرے لئے خرچ کر دیا اب آپ لوگ بتائیں اس بڑ ھیا اورا س کے بیٹے کی اس محبت و ایثار کے بدلے میں اسے کیا دوں کہ اس عمل کی تلا فی ہو سکے؟کسی نے کہاکہ سو بکریاں دے دیں ، کسی نے کہا کہ سو بکریاں اورسو اشرفیاں دے دیں ۔ کسی نے کہا فلاں زمین دے دیں ، تو با دشاہ نے کہا یہ صحیح نہیں ہاں میں اگر اسے پو ری سلطنت دے دوں تو یہ تلافی
(۱) ا لعبقری الحسان ،ج۱ ص ۱۹۹
(۲) کامل الز یارا ت، ص ۱۸۰
(۳) بحار، ج۱۰۱، ص ۲۹۰،اقبال الا عمال، ص ۳۸ ، شیخ طو سی ، مصبا ح المتھجد ،ص ۵۳۸ ، ۵۴۲و ۵۴۷
’’میں یہ سو چ رہاتھا کہ کیسے خدا و ند اما م حسینؑ کے زائر ین اور گریہ کر نے والوں کو اتنا زیادہ ثو اب دیتا ہے جیسے یہ کہ زائر کو ہر قد م کے بد لے ایک حج اور ایک عمر ہ کا ثوا ب ملے گا ، ایک آنسو کے قطرے کے بدلے اس کے تما م صغیر ہ و کبیر ہ گنا ہ معاف کر دئیے جا ئیں گے ؟ تو اس عرب سوا ر نے کہا تعجب نہ کرو میں تمہیں ایک مثا ل دیتا ہوں جس سے تمہا ری مشکل حل ہوجا ئے گی ۔ ایک بادشا ہ شکا ر کر تے ہو ئے اپنے سا تھیوں سے جدا ہو گیا ،بیابان میں سے ایک خیمہ نظر آیا وہ وہاں خیمہ کے اندر داخل ہو اس نے ایک بڑ ھیا اپنے بیٹے کے ہمرا ہ خیمے کے اندر بیٹھی ہے ، ان کے پاس صرف ایک ہی بکر ی تھی جس سے ان کی روز ی چلتی تھی اس کے علا وہ کچھ نہ تھا ، اس بڑ ھیا نے وہی بکر ی ذبح کر دی اور بادشاہ کو کھا نا کھلا یا وہ بڑھیا اس بادشاہ کو جا نتی نہیں تھی صرف مہما ن کے احترام میں اس نے یہ کیا ، باد شا ہ رات وہیں رہا ، واپس آکر عمومی دربار میں اس نے یہ واقعہ ذکر کیا کہ کیسے میں اپنے لشکر سے جدا ہو گیا اور بھو کا پیاسا اس خیمے تک پہنچاوہ بڑ ھیا مجھے پہچانتی نہیں تھی، اس نے اپنا پو را سرمایہ یعنی بکری میرے لئے خرچ کر دیا اب آپ لوگ بتائیں اس بڑ ھیا اورا س کے بیٹے کی اس محبت و ایثار کے بدلے میں اسے کیا دوں کہ اس عمل کی تلا فی ہو سکے؟کسی نے کہاکہ سو بکریاں دے دیں ، کسی نے کہا کہ سو بکریاں اورسو اشرفیاں دے دیں ۔ کسی نے کہا فلاں زمین دے دیں ، تو با دشاہ نے کہا یہ صحیح نہیں ہاں میں اگر اسے پو ری سلطنت دے دوں تو یہ تلافی ہوگی کیونکہ ان کے پاس جو کچھ تھا انہوں نے وہ مجھ پر نثار کر دیا اب میرا فرض بنتا ہے کہ میرے پا س جو کچھ ہے میں وہ سب انہیں دے دوں ، سید الشہداء کے پا س بھی جو کچھ تھا مال ، اہل و عیا ل ،بھا ئی ،بیٹے ، سر اور جسم مطہر وہ سب کے سب راہ خدا میں نثا ر کر دئیے اب رضائے خدا یہ ہے کہ وہ اس کی زیارت کر نے والوں اور اس پر گر یہ کر نے والوں کو یہ سب اجرو ثواب دے ، وہ عر ب یہ کہہ کر سید بحر العلو م کے سامنے غائب ہو گئے ‘‘(۱)