Danishkadah Danishkadah Danishkadah
حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے فرمایا، جو شخص اہلِ تہمت کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے وہ اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ اس پر بھی تہمت لگائی جائے۔ من لا یحضرہ الفقیہ حدیث5840

محرم الحرام کے بارے میں اہم سوال و جواب

شہا دت کا علم

سوا ل ۲۲ : کیا اما م حسینؑ جا نتے تھے کہ آپ شہید کر دیئے جا ئیں گے ؟ اگر ایسا ہے تو پھر آپ کیوں خود چل کر اپنی قتل گاہ ( جائے شہادت ) کی طرف تشر یف لے گئے؟
جو اب : شیعہ روایا ت و احا دیث کی روشنی پرائمہ اہل بیت علیہم السلام خداوند کی طرف سے علم غیب کے حامل تھے،جیسا کہ قرآن میں ارشا د ہے:
عالم الغیب فلا یظھر علی غیبہ احدا الا من ارتضیٰ من رسول ۔
’’خدا وند غیب کا عالم ہے وہ اپنے غیب پر کسی ایک کو بھی مطلع نہیں کرتا مگر اپنے منتخب رسول کو‘‘
یہ آیت دلا لت کر تی ہے کہ علم غیب خدا وند کے ساتھ خاص ہے، کوئی ایک اس سے مطلع نہیں ہو سکتا مگر وہ رسول جسے خدا وند خود منتخب فر ما ئے اور نیز دوسرے انسان بھی خد ا اور رسول کی تعلیم کی ذریعے علم غیب سے مطلع ہو سکتے ہیں ۔
علا مہ سید محمدحسین طبا طبا ئی صاحب تفسیرالمیزان اس با رے میں فر ما تے ہیں :
شیعہ عقیدے کے مطابق اما م حسینؑ ، رسول ؐ خدا کے جا نشینوں میں سے تیسرے جانشین تھے اور صاحب ولایت کلیہ تھے،اما م علیہ السلام کا علم اشیا ء و حوادث کے بارے عقلی و نقلی ادلہ کے مطابق دوقسم پر ہے۔
قسم اوّل :
اما مؑہرحال میں اذنِ خدا کے ساتھ اس کائنا ت کی حقیقتوں کا عالم ہونا چاہے ان حقائق کاتعلق عالم محسو س ہو یا عالم محسو س سے ماوراء ہو جیسے آسمانی موجو دات اور مستقبل میں پیش آنے والے حالات و وا قعات ۔
دوسری قسم : عام عا دی علم ہے، پیغمبر واما م بھی دوسرے افراد کی طرح عادی علم کے مجریٰ میں قرار پا تے ہیں اور جو منا سب سمجھتے ہیں وہ انجام دیتے ہیں ـ۔ تو جہ کر نی چاہیے کہ حوادث کے بارے میں اما م کا قطعی و ناقابل تغیر و تبد ل علم جبر کا موجب نہیں ہو گا، جیسا کہ خدا وند کا علم انسا ن کے افعا ل کے بارے میں جبر کا باعث نہیں بنتا ،کیونکہ خدا وند کی مشیت انسان کے اختیار افعال کے متعلق ہو ئی ہے یعنی خدا وند علم رکھتا ہے کہ انسا ن اپنے ارا دہ و اختیا ر کے ساتھ اپنے کاموں کو انجام دیتا ہے۔
اما م حسینؑ کے بارے میں متوا تر روایا ت کے ساتھ ثابت ہے کہ رسو ل ؐ خدا اور امیرالمومنین علیہ السلام نے آپ کی شہا دت کی خبر دے رکھی تھی اور یہ روا یات تاریخ و حدیث کی معتبر کتابوں میں موجود ہیں ، صحا بہ ، رسو ل ؐ اور رسو لؐ خدا کے اقربا ء ان رو ایا ت کو سن چکے تھے ، ( کچھ بلا واسطہ اور کچھ بالوا سطہ )
اسی طرح جب اما م حسینؑنے مدینہ سے مکہ کی طر ف اور پھر مکہ سے عرا ق کی طرف سفر کا عزم فر ما یا تو بڑی بڑی اسلامی شخصیات نے سخت فکر مند ی کا اظہا ر کیا اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ شہادت اما م حسینؑ کے بارے میں رسول ؐ خدا کی روایا ت کو سن چکے تھے نیز بنی امیہ کے اسلامی مما لک پر تسلط کی وجہ سے اس دور کے حالات اور بنی امیہ کے ظلم و استبد اد کی وجہ سے مسلمانوں کے دلوں میں خوف و ما یوسی کے چھا جا نے کی وجہ سے وہ اموی حکومت کے خلا ف مبارزہ و مقا بلہ سے ما یو س ہوچکے تھے ، نیز حضر ت امیر المو منینؑ اور اما م حسنؑ کے دو ادوار میں کوفیوں کے سابقہ کر دا ر کو دیکھتے ہو ئے انہیں اندا زہ ہو چکا تھا کہ آپ اپنی موت و شہادت کی طر ف قدم بڑھا رہے ہیں ،اس کے برخلاف نتائج کی توقع نہ ہو نے کے برا بر تھی۔
اما م حسینؑ نے اپنی شہادت کی خبر تو تسلسل کے ساتھ دی ،لیکن کسی کو یزید کے حکومت سے ہٹا ئے جا نے اور اسلامی حکومت کی تشکیل کے حوالے سے کوئی خبر نہیں دی، البتہ سب کوان کی یہ شرعی ذمہ داری ضرور بتلا ئی کہ آپ کا ساتھ دیں اور یزید کی بیعت و اطاعت سے پرہیز کریں بلکہ اس کے خلاف قیام وانقلاب برپا کریں ۔ اگر چہ آپ جا نتے
(۱) تا ریخ طبر ی، ج۴ ص ۲۹۲، الحسن و الحسین سبطا رسو ل اللّٰہ، ص ۹۱ ، ۹۲
اما م حسینؑ نے اپنی شہادت کی خبر تو تسلسل کے ساتھ دی ،لیکن کسی کو یزید کے حکومت سے ہٹا ئے جا نے اور اسلامی حکومت کی تشکیل کے حوالے سے کوئی خبر نہیں دی، البتہ سب کوان کی یہ شرعی ذمہ داری ضرور بتلا ئی کہ آپ کا ساتھ دیں اور یزید کی بیعت و اطاعت سے پرہیز کریں بلکہ اس کے خلاف قیام وانقلاب برپا کریں ۔ اگر چہ آپ جا نتے تھے کہ ایسا انقلاب قطعا ًبر پا نہیں ہو گا بلکہ آپ خود اپنے مٹھی بھر سا تھیوں کے ہمر ا ہ شہیدکر دئیے جائیں گے، لہٰذا آپ اپنی شہا دت کی خبر لوگوں کو دیتے رہے، کبھی تو ان کے جو ا ب میں جو آپ کو عراق سے روکنا چاہتے تھے آپ نے فر ما یا :
میں نے نانا رسولؐ خدا کو خواب میں دیکھا ہے جس میں آپ نے مجھے اس سفر کا حکم دیا ہے جس پر عمل کر نا میرے اوپر لازم ہے۔(۱)
کشف الغمہ میں ا ما م زین العا بدینؑ سے نقل ہو ا ہے کہ ہم جس منزل پر بھی اترتے اور وہاں سے رو انہ ہو تے تو میرے با با حضر ت یحییٰ بن زکریا علیہ السلام کی شہادت کا تذکرہ کرتے ، ایک دن فرمایا :’’زمانے کی ستم ظریفی دیکھیں کہ یحییٰ علیہ السلام کے سراقدس کو کاٹ کر بنی اسرا ئیل کی ایک بدکار عورت کو تحفہ کے طور پر بھیجا گیا ۔ (۲)پس قطعی اسنا د و مدارک سے ثا بت ہے کہ اما م حسینؑ اپنی شہا دت اور ظاہر ی کامیا بی کے حاصل نہ ہو نے سے مکمل طو ر پر آگا ہ تھے اورآپ کے قیا م کا مقصد یزیدی حکومت کو باطل اعلان کرنے ، دین کا احیا ء کر نے ،فکر ی انحرا فات و شبہا ت کو دور کر نے اور یزیدی حکومت کی طرف سے اسلام پر پڑنے والی ضربتوں سے اسلام کو نجا ت دلا نے کی خا طر تھا۔
یہ اما م حسینؑ ہی کا کام تھا کہ آپ نے کوفیوں کی دعو ت کا مثبت جواب دیتے ہوئے اپنی حقانیت کو اس طرح تد بیر و معقو لیت کے سا تھ اجاگر کیا کہ سب پر آپ کی طرف سے حجت تما م ہو گئی ۔ آپ کی نہضت میں مظلو میت کا عنصر شامل ہو گیا جس سے ظالموں کے
(۲) تا ریخ طبر ی، ج۴ ص ۲۹۲، الحسن و الحسین سبطا رسول اللّٰہ، ص ۹۱ ، ۹۲
(۳)قمقا م ،ص ۳۵۹ نظم در رالمسمطین ص ۲۱۵، مزید تفصیلا ت ،الف : مقتل خوارزمی ف ۸، ص ۱۶۰، ف۹، ص۱۸۷، ف۱۰، ۲۱۸، ص۱۹۱،۱۹۲،ب : طبری، ج۴، ص ۳۱، پ:کامل ،ج۳ ص ۲۷۸،ت : قمقام، ص ۳۳۳، ث : قمقام ،ص ۲۶۳،و۲۶۴ ،ج : ترجمہ تاریخ ابن اعثم ، ص ۳۴۶میں دیکھیں ۔
یہ اما م حسینؑ ہی کا کام تھا کہ آپ نے کوفیوں کی دعو ت کا مثبت جواب دیتے ہوئے اپنی حقانیت کو اس طرح تد بیر و معقو لیت کے سا تھ اجاگر کیا کہ سب پر آپ کی طرف سے حجت تما م ہو گئی ۔ آپ کی نہضت میں مظلو میت کا عنصر شامل ہو گیا جس سے ظالموں کے چہرے قیا مت تک کے لئے نفر ت آمیز ہو گئے اور آپ کی نہضت کو دوا م تب ہی حاصل ہو سکتا تھا کہ اس میں الٰہی رنگ موجود ہو تا جو کہ آپ کی شہا دت اور بہنوں ، بیٹیوں کی اسارت کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا تھا۔(۳)