Danishkadah Danishkadah Danishkadah
حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے فرمایا، جب کھانے کی خواہش ہو تو کھانا کھاؤ اور خواہش باقی ہو تو ہاتھ اٹھا لو بحارالانوار ج59 ص290، تتمۃ کتاب السماء والعالم، ابواب الادویۃ وخواصہا، باب89نادر
Karbala TV Live
ترتیل قرآن کریم اردو

اسلامی افکار

امام خمینی - اتحاد کے فلسفے کے استاد اور رہنما

آية الله سید علی خامنه ای

امام خمینی اپنے دورِ ذمہ داری میں اس طرح کی وحدت کی تلقین فرماتے رہے اس سلسلے میں وہ معاشرتی طبقات اور سیاسی حکام کو متنبہ کرتے رہتے اور بعض مراحل پر ان کی سرزنش کرتے تھے۔ اپنی زندگی کے آخری برسوں میں ایک مقام پر گورنروں سے مخاطب ہوکر امام نے فرمایا:'گورنر صاحبان کو آپس میں متحد ہونے کے ساتھ ساتھ عوام کے ساتھ بھی انہیں یک دل ہونا چاہئے اس لئے کہ ہمارے پاس جو کچھ ہے وہ خداوند عالم کے فضل و کرم اور اس قوم کی وجہ سے ہے۔آپ کو متحد ہونا چاہئے تاکہ آپ محفوظ رہیں۔ آپ کے درمیان تفرقہ و اختلاف پیدا کرنے کی سازشیں ہورہی ہیں اور اس بات کا دھیان رہے کہ تفرقہ انگیز باتیں کرنا گناہ کبیرہ ہے اور مشکل ہے کہ خدا اسے بخشے چاہے ہمارے دشمن اس طرح کی باتیں کریں یا ہمارے دوست اور چاہے ایسی بانی تقدس اور شرافت کے دعویداروں کے منہ سے نکلیں یا ان لوگوں کے جو اس قسم کے دعوے نہیں کرتے۔'جب امام خمینی کے دفتر کے ایک رکن نے معاشرے میں ابھرنے والے دو قسم کے فکری سیاسی گروہ کے نظریات کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے دونوں گروہ کی سرگرمیوں کو نہ صرف نادرست اور غیر نقصاندہ قرار دیا بلکہ علمائے سلف کی سیرت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:'اسلام کے عظیم فقہاء کی کتابیں، مختلف عسکری، ثقافتی، سیاسی، اقتصادی اور عبادی موضوعات پر اختلاف آراء و روش اور مفاہیم میں اختلاف سے پُر ہیں۔ اسلامی حکومت میں ہمیشہ اجتہاد کا دروازہ کھلا رہنا چاہئے اور حکومت اور انقلاب بھی یہی ہے کہ مختلف شعبوں میں فقہی اجتہادی آراء چاہے ایک دوسرے کے مخالف ہی کیوں نہ ہوں آزادانہ طور پر پیش کی جائیں اور کسی کو اس سلسلہ کو روکنے کا حق نہیں پہنچتا ہے۔' ((صحیفۂ نور، ج٢١، ٤٦، ٢٧)) مختصراً کہہ سکتے ہیں کہ امام خمینی کی نظرمیں پسندیدہ وحدت مکمل عملی اتحاد اور تمام سرکاری اداروں اور عہدیداروں کے فعل و عمل میں ہم آہنگی اور اسلام و انقلاب کے بنیادی اصول میں فکری یکسوئی ہے۔ ٢۔ مخالفین کو امت مسلمہ کے ساتھ اتحاد کی دعوت: ملحد و منافق عناصر اور اسلامی حکومت کے مخالفین بھی امام خمینی کی پند و نصیحت سے بے بہرہ نہیں تھے۔ اگرچہ عام طور پر ان کے کانوں پر مہر لگی ہوئی تھی اور انہیں اس پند و نصیحت کو قبول کرنے کی توفیق حاصل نہیں تھی۔ ان گروہوں کو کی جانے والی امام خمینی کی تلقینوں میں امت مسلمہ کے ساتھ اتحاد اور عوام کی صفوں میں شامل ہونا تھا جس نے امام خمینی کے نظریات کو قبول کرلیا تھا۔ یہ دعوت نظریاتی اتحاد (وحدت نبوتی) ہے اسٹرٹیجک اتحاد (وحدت علوی) نہیں ہے اور مصلحت اسی میں تھی کہ ان عناصر کو غلط راستوں پر بھٹکنے سے روکا ہے۔