Danishkadah Danishkadah Danishkadah
حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے فرمایا، مومن وہ ہوتا ہے،جسے لوگ اپنے خون اور مال کا امین بنائیں۔ کنزالعمال حدیث739
Karbala TV Live
ترتیل قرآن کریم اردو

اسلامی افکار

امام حسینؑ آغازِ سفر اور گفتگو

آية الله سید علی خامنه ای

امام حسین علیہ السلام مکے سے نکل گئے ، آپ نے راستے میں تمام منزلوں پر مختلف لہجوں میں کچھ باتیں کہیں ۔ بیضہ نامی منزل میں ایسے حالت میں کہ جب حر بن یزید بھی آپ کے ساتھ ہے ، آپ آگے چلتے ہيں تو وہ بھی آپ کے ساتھ چلتا ہے اس طرح سے آپ اس منزل پر پہنچتے ہيں اور قیام کرتے ہيں ۔ شاید آرام کرنے سے قبل یا تھوڑی دیر آرام کرنے کے بعد آپ کھڑے ہوتے ہيں اور دشمن کے لشکر کو مخاطب کرکے اس طرح سے فرماتے ہيں : «ایّهاالنّاس، انّ رسولاللَّه (صلّىاللَّهعلیهوآله) قال: «من رأى سلطاناً جائراً مستحلاً لحرام اللَّه، ناكثاً لعهداللَّه، مخالفاً لسنّة رسولاللَّه یعمل فى عباداللَّه بالاثم والعدوان ثم لم یغیّر بقول و لا فعل كان حقّاً علىاللَّه ان یدخله مدخله»؛ یعنی اگر کوئي یہ دیکھے کہ سماج میں کوئي حاکم اقتدار میں ہے اور ظلم کرتا ہے ، خدا کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال اور حلال کی ہوئي چیزوں کو حرام قرار دیتا ہے ، الہی احکامات سے کنارہ کش ہوتا ہے یعنی ان پر عمل نہيں کرتا اور دوسروں کو بھی عمل کی جانب راغب نہيں کرتا یعنی عوام میں اس کی کارکردگی گناہ ، مخاصمت اور ظلم پر مشتمل ہوتی ہے ۔ حاکم فاسد اور جائر جس کا مکمل مصداق یزید تھا«و لمیغیّر بقول و لافعل»، اور زبان و عمل کے ذریعے اس کے خلاف اقدام نہ کیا جائے «كان حقّاً على اللَّه ان یدخله مدخله» قیامت کے دن خداوند عالم اس چپ رہنے والے لاپروا و بے عمل شخص کو بھی وہی سزا دے گا جو اس نے اس ظالم کو دی ہوگی یعنی ان دونوں کو ایک ہی صف میں کھڑا کرے گا ۔ یہ بات پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمائی ہے یہ جو ہم نے بات کہی ہے اس کا حکم پیغمبر اسلام نے دیا ہے یہ مختلف بیانات کا ایک نمونہ ہے ۔ پیغمبر نے واضح کر دیا تھا کہ اگر اسلامی سماج انحراف کا شکار ہو جائے تو کیا کیا جائے ۔ امام حسین علیہ السلام نے بھی پیغمبر اعظم کے اسی قول کو پیش کیا ہے ۔ تو پھر فریضہ کیا ہوا ؟ فریضہ قول و فعل کے ذریعے مخالفت ہوا ۔ اگر انسان ایسے حالات میں پہنچ جائے _ البتہ حالات مناسب ہوں _ تو اس پر واجب ہے کہ اس عمل کے خلاف قیام و اقدام کرے نتیجہ جو بھی ہو ، مار ڈالا جائے ، زندہ بچ جائے ، ظاہری اعتبار سے کامیاب ہو نا نہ ہو - ہر مسلمان کو اس صورت حال میں قیام و اقدام کرنا چاہئے یہ وہ فریضہ ہے جس کی وضاحت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کی ہے ۔ اس کے بعد امام حسین علیہ السلام نے فرمایا : «و انّى احق بهذا»؛ میں تمام مسلمانوں میں سب سے زيادہ مستحق ہوں اس بات کا کہ یہ اقدام کروں اس طرح سے قیام کروں کیونکہ میں فرزند رسول ہوں ۔ اگر پیغمبر اس تبدیلی کو ، یعنی اس اقدام کو مسلمانوں کے فرد فرد پر واجب کیا ہے تو ظاہر ہے کہ حسین ابن علی ، فرزند رسول ، پیغمبر اسلام کے علم و حکمت کے وارث پر دوسروں کے مقابل زیادہ واجب ہے کہ اقدام کریں اور میں نے اسی لئے اقدام کیا ۔ تو امام نے اس طرح سے اپنے قیام کا سبب واضح کر دیا ۔ ازید نامی منزل میں جہاں چار لوگ آپ سے ملحق ہوئے امام حسین علیہ السلام نے ایک خطبہ دیا ۔ آپ نے فرمایا : «اما واللَّه انّى لأرجو ان یكون خیراً ما اراد اللَّه بنا؛ قتلنا او ظفرنا». یہ اس بات کی دلیل ہے جو ہم نے کہی ہے کوئی فرق نہيں ہے کامیاب ہوں یا مار ڈالے جائيں ، کوئي فرق نہيں پڑتا ۔ فریضہ ، فریضہ ہے اسے انجام دیا جانا چاہئے آپ نے فرمایا : مجھے یہ امید ہے کہ خدا وند عالم نے ہمارے لئے جو فیصلہ کیا ہے وہ خیر ہے چاہے ہم مار ڈالے جائيں یا کامیاب ہوں ۔ کوئي فرق نہيں پڑتا ہم اپنے فریضے پر عمل کر رہے ہیں ۔ کربلا پہنچے کے بعد آپ نے اپنے پہلے خطبے میں فرمایا: «قد نزل من الامر ما قد ترون ...» اس کے بعد فرمایا«الا ترون الحق لایعمل به و الى الباطل لایتناهى عنه لیرغب المؤمن فى لقاء ربه حقا» - اس خطبے کے آخر تک _ یہاں پر ہم اپنی گفتگو مختر کرتے ہيں ۔ تو یہ بات واضح ہو گئ کہ امام حسین علیہ السلام نے ایک فریضے پر عمل کے لئے قیام کیا تھا ۔ یہ فریضہ طول تاریخ میں تمام مسلمانوں پر ہے اس فریضے کا معنی یہ ہے کہ جب بھی آپ دیکھيں کہ اسلامی سماجی نظام میں ، بنیادی خرابی پیدا ہو گئ ہے اور اس بات کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ احکام اسلامی ممکل طور پر بدل دئے جائيں تو ہر مسلمان کو قیام کرنا چاہئے ۔ البتہ مناسب حالات میں ، جب اسے یہ علم ہو کہ اس قیام کا اثر ہوگا ۔ حالات میں ، زندہ بچ جانا ، مار ڈالا جانا یا تکلیف نہ اٹھانے جیسی چیزیں شامل نہیں ہیں ، ان کا شمار حالات میں نہيں ہوتا اسی لئے امام حسین علیہ السلام نے قیام کیا اور اس واجب فریضے پر عمل کیا تاکہ سب سے لئے درس بن جائے ۔ اب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ طول تاریخ میں مناسب حالات میں کوئی بھی یہ کام کر سکتا ہے یہ اور بات ہے کہ امام حسین علیہ السلام کے دور کے بعد ، کسی بھی امام کے زمانے میں ایسے حالات پیش نہيں آئے خود اس پر بھی بحث کی جا سکتی ہے کہ کیوں ایسے حالات پیش نہيں آئے ؟ کیونکہ ديگر اہم کام تھے جن کو کرنا ضروری تھا اور ایسے حالات ، اسلامی سماج میں ائمہ کی موجودگی کے آخری دور اور غیبت کے آغاز تک پیش نہيں آئے ۔ طول تاریخ میں اسلامی ممالک میں اس قسم کے حالات کئ بار در پیش ہوئے ۔ آج بھی شاید عالم اسلام میں ایسے بہت سے علاقے ہوں کہ جہاں ایسے حالات ہيں کہ جن میں مسلمانوں کو اپنے فريضے پر عمل کرنا چاہئے ، اگر وہ یہ کام کر لیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ انہوں نے اپنا فرض پورا کر دیا اور اسلام کو وسعت دی اور اس کی بقا کو یقینی بنا دیا ۔ اس قیام میں ایک دو لوگوں کو شکست بھی ہوگی ۔ جب اس تبدیلی و قیام و اصلاحی تحریک کا اعادہ ہوگا تو یقینی طور پر سماج سے انحراف و بدعنوانی جڑ سے ختم ہو جائے گی ۔ کسی کو بھی اس راستے کا علم نہيں تھا کیونکہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں تو ایسا نہیں ہوا تھا ۔ خلیفہ اول کے زمانے میں بھی اس پر عمل نہيں ہوا ، امیر المومنین نے بھی جو معصوم تھے ، اس کام کو انجام نہیں دیا تھا اس لئے امام حسین علیہ السلام نے علمی لحاظ سے پوری تاریخ اسلام کو ایک بہت بڑا سبق دیا ہے اور در حقیقت اسلام کو اپنے اور دیگر تمام زمانوں میں محفوظ کر دیا۔