Danishkadah Danishkadah Danishkadah
حضرت امام علی نے فرمایا، سب لوگوں سے زیادہ منافع اُس نے کمایا جس نے دنیا بیچ کر آخرت خرید لی۔ غررالحکم حدیث2471
Karbala TV Live
ترتیل قرآن کریم اردو

اسلامی افکار

امام حسین استقامت کی عظیم مثال

آية الله سید علی خامنه ای

امام حسین علیہ السلام نے اس پرچم کو مضبوطی سے تھامے رکھا اور اس کے لئے اپنے پیاروں کی قربانی و اسیری بھی قبول کی ۔ کسی انقلابی تحریک میں یہ فخر کا پہلوہوتا ہے۔ معنویت کے پہلو میں بھی یہی صورت حال ہے۔ میں نے کئ بار بیان کیا ہے کہ بہت سے لوگ امام حسین علیہ السلام کے پاس آئے اور اس قیام پر ان کی ملامت کی وہ لوگ برے یا چھوٹے نہيں تھے کچھ تو بزرگان اسلام میں سے تھے لیکن باشعور نہيں تھے اور انسانی کمزوریاں ان پر غالب آ چکی تھیں اسی لئے وہ چاہتے تھے کہ امام حسین علیہ السلام کو بھی اسی کمزوری میں مبتلا کر دیں۔ لیکن امام حسین علیہ السلام نے صبر کیا اور جھکے نہيں۔ جو لوگ بھی امام حسین علیہ السلام کے ساتھ تھے وہ باطن کی اس معنوی جنگ میں فاتح قرار پائے۔ وہ ماں جس نے اپنے نوجوان بیٹے کو ہنستے ہوئے میدان جنگ میں بھیجا، وہ نوجوان جس نے زندگی کی ظاہری لذتوں سے منہ پھیر لیا اور خدا کی راہ میں قابل ستائش جہاد کیا۔ حبیب ابن مظاہر اور مسلم بن عوسجہ جیسے بوڑھے ساتھی جو بڑی آسانی سے بڑھاپے کی آرام طلبی و اپنے گھر کے نرم بستروں کو بھول گئے اور عمدا سختیوں سے روبرو ہوئے، وہ بہادر سردار جس کا دشمن کی فوج میں ایک مقام تھا ، حر بن یزید ریاحی ، جنہوں نے اس مقام سے منہ پھیر لیا اور امام حسین علیہ السلام سے جڑ گئے یہ سب کے سب ، اس معنوی جنگ میں فاتح رہے ۔ اس دن جو لوگ اخلاقی اچھائیوں و برائيوں کی جنگ میں فاتح ہوئے اور عقل و جہل کے درمیان صف آرائی میں ، جن کی عقلیں جہل پر چیرہ دست ہوئيں ان کی تعداد مٹھی بھر سے زيادہ نہيں تھی لیکن شرف و عزت کی جنگ میں ان کی پائیداری و جواں مردی کی وجہ سے طول تاریخ میں آج کروڑوں انسانوں نے ان سے درس حاصل کیا اور انہيں کا راستہ اختیار کیا ۔ اگر ان کے وجود کی فضیلتوں کو ضلالتوں کے مقابل فتح نصیب نہ ہوتی تو تاریخ میں فضیلت کا درخت خشک ہو جاتا لیکن انہوں نے اس درخت کی آبیاری کی اور آپ نے اپنے زمانے میں بھی بہت سے ایسے لوگوں کو دیکھا جنہوں نے اپنے باطن میں فضیلتوں کو فتح عطا کی اور اور نفسانی خواہشات پرقابو پاکر صحیح دینی نظریات پر عمل کیا ۔ یہی دو کوہہ نامی فوجی چھاونی اور ديگر چھاونیاں اور ملک کے مختلف میدان جنگ و محاذوں نے ایسے ہزاروں لوگوں کا مشاہدہ کیا ہے۔ آج دوسرے آپ سے سبق لے رہے ہیں۔ آج پورے عالم اسلام میں ایسے لوگوں کی کمی نہيں ہے جو اپنے باطن میں، حق و حقیقت کو فاتح دیکھنا چاہتے ہيں۔ آپ کی پائیداری نے ، چاہے مقدس دفاع کے دوران ہو یا ديگر بڑے امتحانات کے موقع پر، ان فضیلتوں کو ہمارے زمانے میں پائیدار کیا ہے ۔ ہمارا زمانہ، مواصلاتی نظام کی ترقی کا زمانہ ہے اور یہ بھی ہے کہ یہ قریبی رابطہ ہمیشہ شیطان اور شیطانی قوتوں کے مفادات میں نہيں ہوتا معونیت کو بھی اس سے فائدہ پہنچتا ہے۔ دنیا والوں نے آپ لوگوں سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ فلسطین میں جو ایک ماں اپنے نوجوان بیٹے کو چومتی ہے اور میدان جنگ میں بھیج دیتی ہے یہ کربلا کا ھی ایک درس ھے اوراس کی ایک مثال ہے۔ فلسطین میں سالہا سال سے مرد و عورت ، بوڑھے و جوان لوگ تھے لیکن کمزوریوں اور جہل و غفلت پر غلبہ حاصل کرنے کی عدم توانائی کی وجہ سے فلسطین ذلت و رسوائی سے دوچار ہوا اور اس کی یہ حالت ہو گئ اور اس پر دشمنوں کا غلبہ ہو گیا۔ لیکن آج فلسطین کی صورت حال بدل چکی ہے۔ آج فلسطین اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ آج فلسطینی قوم ، اپنے باطن میں جاری جنگ میں معنویت کو فتح عطا کرنے میں کامیاب ہو چکی ہے اور اب فتح اسی قوم کی ہوگی ۔ تیسرے پہلوں میں بھی جو عاشورا کے مصائب کا پہلو ہے سر بلندی و فخر کے کارناموں کا بخوبی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ حالانکہ یہ مصائب و شہادتیں ہیں۔ حالانکہ، بنی ہاشم کے ہر نوجوان کی شہادت، امام حسین علیہ السلام کے اطراف موجود بچوں اوربوڑھے اصحاب کی شہادت بہت غم ناک اور دردناک ہے لیکن ہر ایک میں عزت و افتخار و کرامت کے گوہر چھپے ہيں۔ یہاں پر آپ لوگوں میں سے اکثر نوجوان ہیں ۔ اس دو کوہہ فوجی چھاونی ميں بھی سیکڑوں نوجوان آئے اور چلے گئے۔ کربلا ميں ایثار کی حقیقی مثال پیش کرنے والے نوجوان کا مظہر کون ہے؟ امام حسین علیہ السلام کے بیٹے حضرت علی اکبر ۔ جو جوانان بنی ہاشم میں سب سے زیادہ نمایاں تھے۔ جو ظاہری و باطنی خوبصورتی سے مالا مال تھے۔ جن میں امام حسین علیہ السلام کی امامت و ولایت کی معرفت اور شجاعت و قربانی اور دشمن کے ظلم و ستم کا مقابلہ کرنے کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا اور جنہوں نے اپنی جوانی کی امنگیں اور ولولے، اپنے اعلی مقصد پر قربان کر ديئے۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ یہ غیر معمولی نوجوان میدان جنگ میں جاتا ہے اور اپنے باپ کی آنکھوں کے سامنے اور اپنے لئے پریشان عورتوں کی نظروں کے سامنے لڑتا ہے اور پھر خون میں ڈوبا اس کا جنازہ خیمے میں واپس آتا ہے۔ یہ معمولی غم نہيں ہے لیکن ان کا میدان جنگ میں جانا اور جنگ کی تیاری ، ایک مسلمان کے لئے عزت و فخر و مباہات کا عملی نمونہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خداوند عالم فرماتا ہے «و للَّه العزّة و لرسوله و للمؤمنين».امام حسین علیہ السلام نے بھی ایسے نوجوان کو میدان جنگ میں بھیج کر ، معنوی کرامت کا مظاہرہ کیا ۔ یعنی اسلامی وقار و حکومت کا پرچم ، جو اسلامی امامت اور ظالم سلطنت کے درمیان فرق کو واضح کرتا ہے ، اسے مضبوطی سے تھامے رہے اور اپنے عزیز ترین فرزند کی جا کی قربانی پیش کر دی۔ آپ نے سنا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کے تمام اصحاب میدان جنگ میں جانے اور لڑنے کے لئے آپ سے اجازت مانگتے تھے اور امام فورا ہی اجازت نہيں دے دیتے تھے۔ کسی کو منع کر دیتے اور کسی سے کہتے تھے کہ وہ کربلا سے ہی چلا جائے، بنی ہاشم کے نوجوانوں اور اپنے اصحاب کے میں ان کی یہ روش تھی۔ لیکن علی اکبر جو ان کے بڑے ہی عزیز بیٹے تھے ، جب لڑنے کی اجازت مانگتے ہيں تو آپ اجازت دے دیتے ہيں یہاں پر بیٹے کی معرفت اور باپ کی عظمت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔