اسلامی افکار
اسلام میں نجی ملکیت کا احترام
آية الله سید علی خامنه ای
اسلام میں نجی مالکیت کا احترام کیا جاتا ہے لیکن اس کی حد بھی معین کر دی گئی ہے۔ حد کا مطلب یہ نہیں کہ کتنا ریال، کتنا ڈالر، کتنا دینار یا کتنا درہم معین کر دیا جائے۔ کیونکہ یہ مقدار تو ہمیشہ یکساں نہیں رہتی۔ ملکیت کے لئے "ضرر و ضرار" کی حد رکھی گئی ہے۔ یعنی اگر کسی کی ذاتی دولت اور سرمائے سے امت مسلمہ یا مسلمانوں کی ایک تعداد کو نقصان پہنچنے لگے تو اس ملکیت کو ضرررساں بننے سے قبل کی حد پر روک دیا جائے گا۔ اسلام میں ذاتی اور نجی ملکیت کا احترام ہے اس وقت تک کہ جب تک وہ ذخیرہ اندوزی، استحصال، تفریق، انسانوں کی بے حرمتی اور سرکشی پر منتج نہ ہو جائے۔ بری بات استحصال، سرکشی، اسراف اور زیادہ روی ہے۔ ان چیزوں کے باعث ذاتی ملکیت بری ہو جاتی ہے۔ دولت بذات خود بری چیز نہیں ہے۔ تو نجی ملکیت کی یہ حدیں ہیں۔ اسلام نے ان برائیوں کی روک تھام پر توجہ دی ہے، اسراف کو مسترد اور اسراف کرنے والے کو قابل مذمت قرار دیا ہے اور اسلامی حاکم اور حاکم شرع کو اسراف، استحصال، تفریق، سرکشی اور ذخیرہ اندوزی کو روکنے کی اجازت دی ہے۔ بنابریں اسلامی حاکم اور اسلامی حکومت کے سربراہ کو یہ اختیار ہے کہ اپنے حکم سے اس زیادہ روی کو روکے۔
اسلامی نظام نجی ملکیت کو قبول کرتا ہے، لوگوں کی اقتصادی کوششوں اور سرگرمیوں کو بھی مانتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ضرورتمندوں اور محتاج لوگوں کے رفاہ و آسائش کے لئے بھی معاشرے کو ایک اک قدم آگے لے جاتا ہے۔ آزاد اسلامی معیشت میں اقتصادی آزادی کے تقاضے کے مطابق معاشرے کے اقتصادی امور کی ذمہ داری اور اقتصادی امور کا سنگین بار عوام کے دوش پر ہوتا ہے۔