Danishkadah Danishkadah Danishkadah
حضرت امام جعفر صادق نے فرمایا، مومن تو ترازو کے پلڑے کی مانند ہوتا ہے، اُس کا ایمان جتنا زیادہ ہوتا جائے گا، اُس کی آزمائش میں بھی اُتنا ہی اضافہ ہوتا جائے گا۔ وسائل الشیعۃ حدیث3595
Karbala TV Live
ترتیل قرآن کریم اردو

اسلامی افکار

ازدواجی معاملات میں دیوانی قانون اور اسلامی قانون کی مطابقت

آية اللہ شہید مرتضیٰ مطہری

میں اپنی بات کو چالیس بند پر مشتمل تجاویز کے اسی نقطہ سے شروع کروں گا کہ جہاں سے ان تجاویز میں بات شروع ہوئی ہے،ان تجاویز میں دیوانی قانون کی ترتیب کے مطابق سب سے پہلے رشتہ مانگنے اور منگنی کرنے کی بات آئی ہے۔ اس بات کے پیش نظر کہ دیوانی قانون میں جو رشتہ مانگنے اور منگنی کرنے کے متعلق قوانین موجود ہیں وہ براہ راست اسلامی قوانین نہیں ہیں،بلکہ دیوانی قانون میں جو کچھ آیا ہے وہ اسلام کے کلی قواعد سے استنباط کر کے حکم نکالاگیا ہے۔ ہم اپنے اوپر دیوانی قانون کا دفاع کرنا واجب سمجھتے اور ہم تجاویز دینے والوں کے نظریات کی جزئیات میں بحث نہیں کرنا چاہتے اگرچہ اس میں شک نہیں کہ سادہ اور آسان ’’بند‘‘کو ٹھیک طرح سے سمجھنے میں بھی وہ عاجز نظر آتے ہیں۔ ہر وہ عورت جو نکاح کی رکاوٹوں سے خالی ہو،اس کا رشتہ مانگا جاسکتا ہے کہ جو مذکور بند کے مطابق ہو حالانکہ اس میں کوئی زبردستی بھی نہیں ہے،شادی کا مطلب مرد کے لئے’’عورت لانا‘‘لیا گیا ہے اور مرد کو بیچنے اور خریدنے والا(دوکاندار اور خریدار)کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور اس کے مقابلہ میں اس طرح کی تعبیریں بہت ہی برا اور ناگوار نفسیاتی اثرات ایجاد کرتی ہیں اور خاص طور سے قانون ازدواج میں اس طرح کی تعبیریں مرد اور عورت کے تعلقات پر برا اثر ڈالتی ہیں اور یہ مرد کو مالکیت اور آقائی کا جذبہ اور عورت کو ملکیت اور بندگی کی حالت عطا کرتا ہے،اس دقیق نفسیاتی ملاحظہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے !جن موارد کو خود تجویز دینے والا ’’رشتہ مانگنے‘‘کے عنوان کے تحت بیان کرتا ہے،صرف اس لئے کہ یہ ’’رشتہ مانگنا ایک طرفہ اور ’’عورت لانے‘‘جیسی حالت میں تبدیل نہ ہو،رشتہ مانگنے کو عورت کی بھی ذمہ داری سمجھتا ہے اور مرد کی بھی،تاکہ شادی میں صرف ’’عورت لانے‘‘کی ہی بات نہ ہو بلکہ’’مرد لانے‘‘کا تصور بھی پیدا ہوجائے یا کم از کم نہ مرد لانے کا تصور پیش آئے اور نہ ہی عورت لانے کا۔ اگر ہم عورت لانا کہیں گے یا ہمیشہ مردوں کو رشتہ مانگنے کے لئے جانے کی ذمہ داری سمجھیں گے تو اس سے عورت کی حیثیت کو ٹھیس پہنچتی ہے اور ایسی صورت میں وہ خریدنے والی جنس(سامان)میں تبدیل ہوتی ہے۔